• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولانا ابوالکلام آزاد :اردو زبان و ادب کے معمار۔۔۔۔۔۔۔غلام نبی کشافی

مولانا ابوالکلام آزاد :اردو زبان و ادب کے معمار۔۔۔۔۔۔۔غلام نبی کشافی

امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد بر صغیر ہی کے نہیں ، بلکہ عالم اسلام کی ایک برگزیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں ، مولانا نہ صرف وقت کے عظیم مفکر اسلام ، مفسر قرآن اور سیاسی رہنما تھے ، بلکہ وہ با وقار صحافی ، اخبار نویس اور انشاء پرداز بھی تھے ، اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سرمایہ اردو کے فروغ میں ان کا جو رول رہا ہے ، وہ تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔
مولانا آزاد نے بارہ سال کی عمر میں ہی لکھنا شروع کیا تھا اور اس عمر میں ان کا پہلا پرچہ ” المصباح ” کے نام سے جاری ہوا تھا ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا پیدائشی طور سے قلمکار تھے ، اور اسی خدا داد صلاحیت کی وجہ سے انہوں نے زندگی کے ہر میدان میں قدم رکھا اور اپنے پیچھے علوم و فنون کے بیش بہا خزانے چھوڑے ہیں ۔ اور اپنی کتاب ” تذکرہ ” میں ایک جگہ اپنے اسلاف سے حصول علم و فیض کے حوالے سے اپنے اعترافی کلمات میں فرماتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

“جو کچھ پایا ہے عشق کی بارگاہ سے پایا ہے ،جتنی رہنمائیاں ملیں ، صرف مرشید فیض وہادی طریق سے ملیں ، علم کا دروازہ اسی نےکھولا ، عمل کی حقیقت اس نے بتلائی ، معرفت کے صحیفے اسی کی زبان پر تھے ، حقیقت کےخزانے اس کے دست کرم میں تھے ، شریعت کےحقائق کا وہی معلم تھا ، طریقت کے نشیب وفراز میں وہی رہبر تھا ”
مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریروں میں غضب کا توازن اور تسلسل نظر آتا ہے ، بلند سے بلند تر موضوعات کو وہ اپنے دلنشین اور شگفتہ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ کسی بھی مضمون یا موضوع میں کسی طرح کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی ہے ۔
میں جب مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریریں پڑھتا ہوں تو میں عموماً ان کی عبارات ، ان کی تمثیلات اور ان کے جملوں کی ساخت و پرداخت کو بہت ہی غور سے دیکھتا ہوں ، تو ہر بار نئی چیزیں میرے سامنے آتی ہیں ۔ اور وہ لفظ تو کیا ؟ بلکہ وہ حروف کے استعمال کے بارے میں بھی دھیان دیتے تھے اور اس سلسلے میں وہ دوسروں کی بھی رہنمائی کرتے تھے ، جیسے ایک حرف ” کو ” ہے ، اور اس کے استعمال کے بارے میں مجھے ذاتی طور پر کسی بھی جملے میں پرونے کے لئے سخت دقت پیش آتی ہے ، اور صحیح بات یہ ہے کہ میں اس کے استعمال کرنے میں اکثر غلطی کر جاتا ہوں اور اس کا اندازہ آپ کو ان مثالوں سے ہوجائے گا ۔
(1) ” میں نے فلسفہ پڑھا ”
یا
” میں نے فلسفہ کو پڑھا ”
(2) ” ہمیں مار ڈالو ”
یا
” ہم کو مار ڈالو ”
( 3) ” وہ اپنی غلطیاں تسلیم کرتا ہے ”
یا
” وہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتا ہے ”
مولانا ابوا لکلام آزاد کہتے ہیں کہ ان تینوں مثالوں میں اول الذکر جملے ہی زیادہ فصیح ہیں ، جن میں حرف ” کو ” کا استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔
اسی طرح
( 4 )” سطح بحر ” یا ” سطح سمندر ”
( 5) ” سطح ارض ” یا ” سطح زمین ”
‌‌ ان فقروں کے اول الذکر دونوں الفاظ عربی ہیں ، جبکہ آخر الذکر فقروں میں ” سمندر ” اور ” زمین ” غیر عربی الفاظ ہیں ، اس لئے اول الذکر ہی فقرے زیادہ فصیح ہیں ۔ لیکن اب اس طرح کا امتیاز نہیں رکھا جاتا ہے ، جیسے ، مرد مجاہد ، حیات بخش ، نفع بخش ، فکری ژولودگی ، وغیرہ ان فقروں میں اول الذکر الفاظ عربی اور ثانی الذکر فارسی کے ہیں ۔
اسی طرح متردیف الفاظ ایک ہی زبان کے ہوں تو زیادہ بہتر ہے ، مثال کے طور پر ” علم و آگہی ” سے زیادہ فصیح ” علم و عرفان ” یا ” علم و فن ” ہے ، جیسے علوم و فنون بھی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ ” آگہی ” فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اسی طرح ہم کبھی ” تقلید و پیروی ” کہتے ہیں ، لیکن اس کی جگہ ” تقلید و اتباع ” کہنا زیادہ فصیح ہے ، لیکن اگرچہ اب پہلے کے مقابلے میں متردیف الفاظ کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے ، مگر جو کرتے ہیں ، تو وہ مختلف زبانوں کے متردیف الفاظ ایک ساتھ کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس سے ہماری اردو زبان مالا مال ہو رہی ہے ، وہ اس طرح کے متردیف الفاظ کا استعمال کرنے میں کوئی امتیاز نہیں کرتے ہے ، بس عبارت میں جامعیت پیدا ہونی چاہئے ، مثال کے طور پر ،
حیرانی و سرگردانی
اضطراب و بیچینی
تہذیب و شائستگی
عقل و دانش
نقش و نگار
رنج و غم
وغیرہ ، میرے نزدیک یہ بالکل صحیح بات ہے ، اور اب اس طرح کے الفاظ استعمال کرنا کوئی معیوب بات نہیں رہی ہے ۔ اس لئے اب اس طرح کے مختلف زبانوں کے متردیف الفاظ کا بیجھجک استعمال ہوتا ہے ، اور کرنا بھی چاہئے ۔
اسی طرح ” وعظ و نصیحت ” اور ” وعظ و تبلیغ ” میں اول الذکر زیادہ فصیح ہے ، جبکہ ” وعظ و تبلیغ ” سے زیادہ ” دعوت و تبلیغ ” زیادہ فصیح ہے ، اگرچہ یہ سارے الفاظ عربی زبان کے ہی ہیں ، اور ان کا استعمال کترت سے ہوتا ہے ، بہت پہلے ” پند و نصائح ” بھی کہا جاتا تھا ، ” پند ” فارسی زبان کا لفظ ہے اور جس کے معنی نصیحت کے ہیں اور اسی طرح لفظ ” نصائح ” نصیحت کی جمع ہے ۔ لیکن اب اس طرح کے متردیف الفاظ کا استعمال تقریباً متروک ہوچکا ہے ۔ اسی طرح ” موت و زندگی ” کے مقابلے میں ” موت و حیات” یا ” موت اور زندگی ” کہنا زیادہ فصیح ہے ۔
واضح رہے مولانا ابوالکلام آزاد بعض اوقات غیر عربی الفاظ کو معرب بناتے تھے اور اس سے جملے میں ایک طرح کی فصاحت پیدا ہوجاتی تھی ۔ مثال کے طور پر فارسی زبان کا ایک لفظ “‌خانقاہ ” ہے اور اس کی جمع مولانا آزاد نے اپنی ایک کتاب میں ایک جگہ پر ” خوانیق ” لکھی ہے ، حالانکہ فارسی زبان میں اس لفظ ” خانقاہ ” کی اس طرح کی کوئی ” جمع ” موجود نہیں ہے ۔ لیکن مولانا آزاد نے ایک قرآنی لفظ ” صوامع ” ( الحج : 40) کے وزن پر اس کی جمع خوانیق بنا دی ہے ، مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی بار مولانا ابوالکلام آزاد کی معرکہ آراء کتاب ” تذکرہ ” پڑھی تھی ، تو اس کتاب کی زبان دقیق ہونے کی وجہ سے اس کا ہر صفحہ پڑھنے کے دوران مجھے ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت پڑتی تھی ، تو جب میں نے اس کتاب میں ” خوانیق ” کا لفظ پڑھا ، تو اس لفظ کے معنی معلوم کرنے کے لئے میں نے ایک درجن کے قریب ڈکشنریاں دیکھی تھیں ، مگر یہ لفظ کہیں نہیں مل سکا تھا ، اور پھر مزید غور و فکر کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ یہ مولانا آزاد کا خود کا بنایا ہوا لفظ ہے ، اور حقیقت بھی یہی تھی ، جیسے ” محرر ” ( لکھنے والا ) اور ” مدیر “( ایڈیٹر ) وغیرہ بیشمار الفاظ تراش تراش کر مولانا ابو الکلام آزاد نے اردو زبان کو مالا مال کر دیا تھا ۔ بالکل اسی طرح اس لفظ کو بھی انہوں نے خود وضع کیا تھا ۔
اگرچہ اب جو اردو زبان بولی یا لکھی جاتی ہے ، وہ بہت ہی آسان ہے ، لیکن ایک صاحب قلم کے لئے دقیق زبان پر عبور ہونا اتنا ہی ضروری ہے ، جتنا کہ وہ روز مرہ کی آسان زبان پر عبور رکھتا ہے ۔ کیونکہ ہمارے علماء نے جو لٹریچر لکھا ہے اور جس کے ذریعے ہمیں دین سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، وہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا ، پہلے کتابیں آگ لگنے یا کسی اور حادثہ کی وجہ سے ضائع ہوجاتی تھیں ، مگر اب ایک معمولی سی چپ ( chip ) میں دنیا بھر کی چیزیں ہمشہ کے لئے محفوظ ہو چکی ہیں ، اس لئے ان کا مطالعہ کرنے کے لئے زبان و ادب پر عبور ہونا ضروری ہے ۔
آخر پر عرض ہے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اردو زبان کو سائینٹفک اسلوب دیا ہے اور ان کا اس معاملے میں زبردست حصہ ( contribution ) رہا ہے اور وہ زبان اور الفاظ کو کس نقط نظر سے دیکھتے ہیں ؟ اس کے لئے ان کا یہ فکر انگیز اقتباس قابل غور ہے ۔
” وقت کے اسلوب میں دین کو بیان کرنا جتنا
ضروری ہے ، وقت کے فکر میں دین کو ڈھالنا
اتنا ہی غلط ہے ۔ اول الذکر تجدید دین ہے اور
ثانی الذکر تحریف دین ۔ ہر دور کی ایک زبان
ہوتی ہے ۔ ہر دور میں کچھ الفاظ اور اسلوب
ہوتے ہیں ، جن میں آدمی سوچتا ہے ، جن میں
اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ، جب زمانہ بدلتا
ہے تو الفاظ سے ذہن کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ، ایک
لفظ جو قدیم دور میں انسان کی نفسیات کو
متحرک کرتا تھا ، نئے دور میں وہ لفظ اپنی یہ
انقلابی قیمت کھو دیتا ہے ، اس وقت ضرورت
ہوتی ہے کہ ذہن اور الفاظ کے درمیان دو بارہ
رشتہ قائم کیا جائے ، تاہم یہ ” جدت ” صرف
الفاظ اور اسلوب کے اعتبار سے ہوتی ہے ، نہ کہ
فکر کے اعتبار سے ”
اس اعتبار سے زبانوں کے تغیرات اور الفاظ کی اپنے اپنے دور میں کیا قیمت اور اہمیت ہوتی ہے ،اس کو جاننا بہت ضروری ہے ، اس لئے لکھنے سے پہلے زبان وادب پر عبور ہونے کے ساتھ ساتھ عصری اسلوب کو بھی سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہوتا ہے ، لیکن زبان و ادب پر کامل عبور نہ ہونے کی صورت میں تحریر و تصنیف کا کام ممکن نہیں ہے ، لیکن اگر کوئی اس طرح کی تیاری کے بغیر لکھتا بھی ہے ، تو وہ نقال ہوگا نہ کہ کوئی تخلیق کار ۔
( سرینگر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply