مردانہ کمزوری کی حقیقت/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

مردانہ کمزوری کے نام پہ صدیوں سے دو نمبر حکیم سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اور اب یہ ذمہ داری شائد صحافی برادران نے سنبھال لی ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ جاوید چوہدری نے مردانہ کمزوری کی دوائی بیچنی شروع کر دی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چونکہ یہ بڑا اثرانداز ہونے والا نفسیاتی حربہ ہے، اس لیے لوگوں کو اس کے ذریعے شکار کرنا آسان ہوتا ہے۔
دراصل “مردانہ کمزوری” کا مسئلہ اکثر کیسز میں وہم سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ جسمانی طور پہ بالکل ٹھیک ہوتے ہیں لیکن ایسا وہم پال کر اسے اپنی کمزوری سمجھنے لگتے ہیں۔
کئی دفعہ صرف ذہنی دباؤ یا زندگی میں آئے کچھ پریشان کن حالات کی وجہ سے بھی نوجوانوں کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں میں یہ مسئلہ وقتی طور پہ ہوتا ہے اور قوی امید ہوتی ہے کہ کچھ عرصے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔
کچھ نوجوان جو زیادہ آرام پسند زندگی کے عادی ہوتے ہیں، ان کی جسمانی سستی کی وجہ سے بھی انھیں ایسے مسائل درپیش آ سکتے ہیں لیکن انھیں بھی دوائی کی نہیں، بس ورزش اور فزیکل ایکٹویٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو واقعی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ادویات موجود ہیں، انھیں اپنا باقاعدہ چیک اپ کروا کے یا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کر کے علاج کروانا چاہیے۔
جو کام انھیں بالکل نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ
کسی دو نمبر حکیم سے ادویات لے کر کھانا شروع کر دیں، کسی دیسی دوا کے نام پہ سٹیرائیڈ استعمال کرنا شروع کر دیں یا کسی چوک میں بیٹھے شعبدہ گر سے سانڈے کا تیل یا نا معلوم پڑیاں لے کر استعمال کرنا شروع کر دیں۔
ایسی ادویات کا استعمال شدید قسم کے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔ جگر کے مسائل سے لے کر گردے ناکارہ ہونے تک خدانخواستہ کسی بھی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
کئی دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بچپن سے نوجوانی میں داخل ہوتے ہوئے لڑکے اپنے دوستوں سے مردانہ کمزوری کے متعلق باتیں سنتے ہیں۔ دوستوں کی مزاح میں چھوڑی گئی لمبی لمبی باتوں کو سنجیدگی سے لے کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ مردانہ کمزوری کے مسائل کا شکار ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے لڑکوں کو بھی چاہیے کہ بروقت کسی سمجھدار بڑے سے یا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اپنی ذہنی پریشانی دور کر لیں۔
اور بڑوں کو چاہیے کہ لڑکوں کے ایسی عمر میں داخل ہونے پہ شرم و حیا ایک طرف رکھ کر خود بھی انھیں بروقت درست معلومات فراہم کر دیا کریں۔ خود نہیں کر سکتے تو کسی قابلِ بھروسہ عزیز کے ذمے یہ کام سونپ دیں۔
یہ بھی ممکن نہیں تو کسی ڈاکٹر کے ساتھ اس کا سیشن کروا دیں، جس میں ڈاکٹر اس نوجوان لڑکے کو تمام معاملات کی حقیقت سے آگاہ کر کے کسی غلط سوچ یا غلط عمل کی طرف جانے سے روک سکے۔
اگر ایسا نہیں کریں گے تو قوی امکان ہیں کہ وہ نوجوان اپنے آوارہ دوستوں سے یہی سب معلومات غلط انداز میں لے کر ساری عمر اپنے آپ میں کڑھتا رہے گا یا کسی غلط سمت میں چلے جائے گا۔
مختصر یہ کہ
ایسے مسائل عموماً وہم کے سوا کچھ نہیں ہوتے، اس لیے ان کو پریشانی کا باعث نہ بنائیں۔ ان سے متعلقہ کسی قسم کی حکیمی دوائی استعمال نہ کریں۔ اور اگر ایسا کوئی مسئلہ محسوس ہو رہا ہو تو بروقت کسی قابلِ بھروسہ عزیز یا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply