انسیسٹ اور کزن میرج – نسل کی بقا یا فنا؟/ثناء فرزند نقوی

‘انسیسٹ’، جسے عام طور پر اپنے قریب ترین رشتہ داروں (ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی) سے جنسی تعلق قائم کرنا کہا جاتا ہے، اسے انسانی معاشروں میں اخلاقی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگوں سے جب بھی یہ پوچھا جائے کہ ہم اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے جنسی تعلق کیوں قائم نہیں کر سکتے تو ان میں سے اکثریت کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس کی اجازت ہمارا مذہب نہیں دیتا یا یہ ہماری اخلاقی اقدار و روایات کے خلاف ہے۔ لیکن کیا دنیا بھر میں درحقیقت اس عمل سے پرہیز کی محض ایک یہی وجہ ہے؟ ہرگز نہیں۔

انسیسٹ سے گریز کی اخلاقی وجوہات تو ہیں ہی، لیکن اس کے علاوہ ایک نکتہ جسے ہمارا معاشرہ برے طریقے سے نظر انداز کرتا ہے وہ ہیں فطری یا جبلی اور سائنسی وجوہات۔ دنیا بھر میں اخلاقی اقدار خطے، معاشرے و دور کے حساب سے مختلف رہی ہیں، لہذا ہم ایک مرتبہ صرف فطری قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معاملے کو دیکھتے ہیں کہ اس سے گریز کی وجوہات کیا ہیں۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا انتہائی اہم ہے کہ انسیسٹ سے محض انسان ہی فطری یا جبلی طور پر گریز نہیں کرتے بلکہ یہ رویہ جانوروں میں بھی فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر جانوروں کو کنٹرولڈ ماحول فراہم کیا جائے یا مختلف وجوہات کے باعث وہ ایک جگہ تک محدود ہو کر رہ جائیں جہاں ان کی نوع کے دیگر جانور نہ پائے جاتے ہوں، تو مجبورا وہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے جنسی ملاپ کرنے اور افزائش نسل کرنے لگتے ہیں، جسے ‘ان بریڈنگ’ کہا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نسل میں کئی جینیاتی بیماریاں سامنے آتی ہیں۔ زیادہ تر اس قسم کا رویہ پالتو جانوروں کے اندر دیکھنے میں آتا ہے، اگر ان کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے باہر اپنی نوع کے دیگر جانوروں سے جنسی ملاپ کے مناسب مواقع میسر نہ ہوں تو۔ لیکن یہ رویہ جنگلی جانوروں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ وہ بلوغت کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں یا ریوڑ سے دور نکل جاتے ہیں۔ یہ رویہ ان میں ارتقا کے باعث فطری طور پر موجود ہے۔ قریب ترین رشتہ داروں سے جنسی ملاپ کی صورت میں پیدا ہونے والی نسل میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جو ان کی نسل کی بقا کے لئے خطرے کا باعث ہوتے ہیں۔ لہذا ارتقا کے باعث یہ رویہ ان کا جبلی و فطری رویہ بن چکا ہے کہ وہ بلوغت کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں سے دور ہو جاتے ہیں جس کے باعث ان سے جنسی ملاپ کے امکانات خود بخود بہت کم ہو جاتے ہیں اور یوں وہ انسیسٹ سے فطری طور پر گریز کرتے ہیں۔

انسانوں میں انسیسٹ کی جانب راغب ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ان میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جو جانوروں میں رہتی ہے جس کا ذکر پہلے کیا گیا۔ لیکن ابھی بھی کئی انسانی معاشروں نے اس معاملے کو گہرائی سے یا تو سمجھا نہیں، یا انہیں سرے سے علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ جس نسل کی بقا کی خاطر ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں دراصل اس طریقہ کار میں ان کی نسل کی بقا سے زیادہ بگاڑ پوشیدہ ہے۔ دنیا بھر میں کئی مہذب معاشروں میں ‘فرسٹ کزن میرج’ یعنی اپنے چچا زاد، تایا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد وغیرہ سے شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور کئی ممالک میں اس پر حکومتی و قانونی سطح پر سختی سے پابندی عائد ہے۔ لیکن بعض ممالک، جن میں انڈیا و پاکستان وغیرہ بھی شامل ہیں، میں اس معاملے سے متعلق یا تو لاعلمی کا اظہار کیا جاتا ہے یا سرے سے مخالفت کی جاتی ہے، جس کی مختلف وجوہات ہیں جن کا ذکر اس تحریر کا موضوع نہیں۔ یہ یاد رکھ لیں کہ اگر آپ اپنی نسل کی بقا کو لے کر فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری نسل پھلتی پھولتی رہے اور اس کی خاطر آپ اپنے ہی خاندان میں افزائش نسل کروا رہے ہیں تاکہ ہماری نسل میں کوئی “ملاوٹ” نہ ہونے پائے تو دراصل آپ اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں اور اس سے آگاہ بھی نہیں۔

جس طرح انسیسٹ کے ذریعے افزائش نسل کے باعث جینیاتی و موروثی بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، اسی طرح دیگر قریبی رشتہ داروں، جن میں خاص طور پر ‘فرسٹ کزن’ (یعنی قریب ترین کزن جن کا پہلے ذکر ہو چکا) شامل ہیں، سے جنسی ملاپ کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی و موروثی بیماریوں کے امکانات بھی کافی زیادہ رہتے ہیں (البتہ انسیسٹ کی نسبت قدرے کم ہو جاتے ہیں)۔ اسی طرح جس قدر دور کے رشتہ دار یا دور کے کزنز میں جنسی ملاپ کیا جائے، تو اس کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی بیماریوں کے امکانات گھٹتے چلے جائیں گے۔ اور یوں ہی اگر بالکل خاندان سے باہر جنسی ملاپ کیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی و موروثی بیماریوں کے امکانات انتہائی کم ہوں گے اور یہ طبی طور پر افزائش نسل کا سب سے زیادہ محتاط اور بہترین طریقہ کار ہے۔

لہذا اگر آپ واقعی اپنی نسل کو فنا، معذوری، جینیاتی نقائص و موروثی جسمانی و ذہنی بیماریوں کا شکار کرنے کی بجائے اس کی بقا، صحت و تندرستی چاہتے ہیں، تو اس کا بہترین حل انسیسٹ کے ساتھ کزن میرج سے بھی پرہیز ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ: یہ تحریر خالصتا سائنسی حقائق اور شماریاتی ڈیٹا کی بنیاد پر لکھی گئی ہے۔ اس کا کسی کے ذاتی عقیدے، ذاتی نقطہ نظر یا رائے اور ذاتی ترجیحات سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا براہ کرم اسے عقائد کے تناظر میں یا ذاتی آراء کی بنیاد پر پرکھنے سے گریز کیا جائے۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply