ماورائے عدالت قتل ۔۔۔عامر عثمان عادل

میرے کچھ دوستوں کا سوال تھا کہ کیا آپ بھی ماورائے عدالت قتل کی حمایت کرنے لگے۔۔
تو عرض ہے کہ کبھی بھی میرے دل نے اس کے حق میں گواہی نہیں دی جب بھی ہتھکڑیوں میں جکڑے خون آلود لاشے دیکھے دکھ ہوا کہ یوں کسی کو باندھ کر مارنا کہاں کا انصاف ہے۔۔ بہتر ہوتا ملزم قانون کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔

پولیس مقابلوں کی ریت آج کی نہیں بہت پرانی ہے۔ ریٹائرڈ آئی جی ذوالفقار چیمہ ایک ٹی وی شو میں اس موضوع پر لائیو گفتگو کرتے ہوئے پولیس مقابلوں کی حمایت میں دلائل کے انبار لگاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ قاتلوں اور خطرناک مجرموں کی دہشت اس قدر ہوتی ہے کہ کوئی  ان کے خلاف شہادت نہیں دیتا، پولیس کڑی ریاضت کے بعد انہیں پابند سلاسل کرتی ہے مگر عدالتیں انہیں رہائی  کا پروانہ تھما دیتی ہیں ۔اس لئے معاشرے کو ان ناسوروں سے پاک کرنے کی خاطر یہ عمل ناگزیر ہے۔

جبکہ عدالتوں کے ذمہ داران کا کہنا ہے ہم کیا کریں پولیس کی تفتیش اور عدالت میں پیش کئے گئے چالان میں اس قدر سقم ہوتے ہیں استغاثہ اتنا کمزور ہوتا ہے جس کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔

آئیے اس کے دونوں پہلو سامنے رکھتے ہیں۔
انسانیت کا تقاضا تو یہی ہے کہ کسی جیتے جاگتے زنجیروں میں جکڑے انسان کو یوں جانوروں کی طرح موت کے گھاٹ اتارنا کسی طور بھی جائز نہیں شاید ہی دنیا کا کوئی  مذہب، کوئی  قانون اس امر کی حمایت کرتا ہو ۔آئین ملزم کو یہ حق دیتا ہے کہ اس کا فری اینڈ فئیر ٹرائل ہو اور وہ اپنے کیے کی سزا قانون کے ہاتھوں پائے۔

لیکن آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔۔
کسی تنازعے کی صورت میں  کوئی شخص بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور قاتل دندناتا پھرتا ہے۔ یقینی طور پر یا تو وہ خود بااثر ہوتا ہے یا پھر اسے کسی ڈیرے یا وڈیرے کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

مقتول کے ورثاء حصول انصاف کی خاطر عدالتوں کی راہداریوں میں رُل جاتے ہیں ،کیس کی پیروی سے باز رہنے کی دھمکیاں سہتے ہیں جمع پونجی خرچ کر دینے کے بعد بھی نسلیں بیت جانے تک انصاف ناپید ۔۔پھر ہوتا کیا ہے، کسی روز تاریخ پر جاتے مقتول کے بدنصیب ورثا کسی چوک چوراہے یا پھر عین ایوان عدل میں گولیوں سے بھون دئیے جاتے ہیں، جنونی قاتل بے جان لاشوں کے گرد بھنگڑا ڈالتے ہیں اور یوں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔

اب بتایئے مظلوم کہاں جائے ،کسے وکیل کرے اور کس سے منصفی چاہے؟ جب انصاف تگڑے کی باندی بن جائے سیاسی ڈیروں پر اس کی بولی لگائی  جائے۔
مقتول کے ورثاء کس کے ہاتھوں پہ اپنے پیاروں کا لہو تلاش کریں فرسودہ عدالتی نظام کے یا پھر بے حس معاشرے کے جو قبر کی مٹی خشک ہونے سے بھی پہلے صلح کیلئے مجبور کر دیتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں ہم نے کتنی ماوں کی گود اجڑتے اور پھر ان ماوں کو سینہ کوبی کرتے دیکھا۔۔
کتنے بھائی  اپنی بہنوں کی ناموس بچانے کی خاطر کسی جتوئی  کسی کانجو کے ہاتھوں چھلنی کر دئیے گئے پھر کیا ہوا ان ماوں کو اپنے باقی بیٹوں کی جان اور بیٹیوں کی عزت بچانے کی خاطر خون بہا لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
ہاں میں بھی ماورائے عدالت قتل کے خلاف ہوں بس مجھے یقین دلا دو۔۔
کہ اب کوئی  مظلوم حصول انصاف کیلئے برس ہا برس عدالتوں کے باہر ذلیل نہیں ہو گا۔
فئیر اینڈ فری ٹرائل کے بعد قاتل کا مقدر پھانسی کا پھندا ہو گا۔
پولیس دیانتداری سے چابکدستی سے چالان یوں مرتب کرے گی کہ قاتل کے بچ نکلنے کا کوئی  راستہ نہ رہے۔
ہاں مجھے یقین دلا دو کہ اگر پولیس مقابلوں میں مارا جانا ماورائے عدالت قتل کے زمرے میں آتا ہے تو حصول انصاف کی خاطر عمریں عدل کے ایوانوں میں گزار دینا انصاف کا عدالتی قتل ہے۔
تو پھر میں بھی آپ کا ہمنوا ہوں۔۔۔!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply