اور اب ایک اور یو ٹرن۔۔۔۔محمد احسن سمیع

2015 میں جب سعودیہ نے یمن جنگ شروع کی اور پاکستان کی مدد کا طالب ہوا تو یہی عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف پاکستان کی اس معاملے میں ممکنہ شمولیت کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کر نہ صرف پارلیمنٹ سے باہر چلا رہے تھے بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بھی خوب شور مچا کر ایوان سے اس جنگ میں شمولیت نہ اختیار کرنے کی قرارداد منظور کروائی۔ نتیجتاً نواز حکومت کو سعودیوں کو انکار کرنا پڑا اور اس انکار کی قیمت نواز شریف کو اپنی حکومت گنوا کر ادا کرنا پڑی۔ اس وقت میرا گمان تھا اور آج مجھے یقین ہے کہ ہماری فوج بھی اپنے دستے یمن بھجوانے کے حق میں تھی کیونکہ اسے انٹرنیشنل لیول پر کردار ملتا نظر آرہا تھا اور اس کا اندازہ جناب شکریہ شریف صاحب کی اس فوجی اتحاد کی سربراہی حاصل کرنے کے لئے دکھائی گئی بے چینی سے بھی ہوتا ہے۔

3 سال قبل سعودی ہمارے پاس درخواست گزار بن کر آئے تھے اور ہم باہمی لین دین کے لئے بہتر پوزیشن میں تھے اور اس معاملے  میں اپنی شرائط پر شمولیت اختیار کرسکتے تھے۔ سعودی فوج کو یمن میں مداخلت سے پہلے کوئی ایک بھی جنگ لڑنے تک کا تجربہ نہیں تھا چہ جائیکہ ان  میں کسی جنگی مہم کی قیادت کی اہلیت ہوتی۔ غالباً ان کے پاکستان کے پاس آنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ سعودی فوج اگرچہ اپنی تیل کی دولت کے بل بوتے پر دنیا کے بہترین ہتھیاروں سے لیس ہے مگر پروفیشنل ازم کے فقدان کے سبب اب تک ایک انتہائی نکمی فوج ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سخت محاذ پر لڑی جارہی ہے جس کا بیشتر حصہ چٹیل پہاڑوں اور وادیوں پر مشتمل ہے۔ پاکستانی افواج کو افغان جنگ کے بعد قبائلی علاقوں میں کئے گئے پے درپے آپریشنز کے باعث اس قسم کے محاذ پر گوریلا جنگ لڑنے کا کافی تجربہ حاصل ہوچکا ہے، خصوصاً سوات اور وزیرستان میں تو فل فلیجڈ جنگ ہی لڑی گئی ہے جس میں فضائیہ اور گن شپ ہیلی کاپٹڑز اور اور بکتر بند دستوں کا مہارت سے استعمال کیا گیا۔

میں نے 3 سال پہلے بھی یہی لکھا تھا کہ ہمارا ملکی مفاد اس  وقت سعویوں کی بات ماننے میں ہی تھا۔ ایران اگرچہ ہمسایہ ملک ہے، مگر ہمار معاشی مفاد جس قدر خلیجی ممالک سے وابستہ ہے، ایران اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی ترسیلات زر جو کہ ہماری معیشت کی لائف لائن ہیں، ان کا نصف سے زائد خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی کارکن بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ سعودی حکومت نے پاک بھارت جنگوں سے لے کر ایٹمی دھماکوں تک کبھی ہمیں مایوس نہیں کیا جبکہ ایران نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے دباؤ پر ڈاکٹر عبدالقدیر والے معاملے میں جس طرح ہمارے ساتھ دغابازی کی تھی، اگر اس وقت افغان جنگ نہ چل رہی ہوتی اور اس کے مفادات ہم سے وابستہ نہ ہوتے تو امریکہ یقیناً ہمارا ناطقہ بند کرچکا ہوتا۔ خیر، ہم فوج کے سیاسی کردار کے ناقد ہونے کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاک فوج دنیا کی سب سے پروفیشنل اور باصلاحیت افواج میں شمار ہوتی ہے اور ہم مانیں نہ مانیں اس کی بنیادی وجہ اس کا برٹش ہیرٹیج ہے۔ اس کے علاوہ محدود وسائل میں خود سے کئی گنا بڑے حریف کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا صرف بھرپور ذہنی صلاحیت اور بہترین و مسلسل تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دوسری جانب سعودی فوج گوکہ اپنی ملکی دولت کے سبب بہترین ہتھیاروں سے لیس ہے، مگر حد سے زیادہ اقرباء پروری اور میرٹ کا فقدان ہونے کی وجہ سے حربی صلاحیت میں بہت پیچھے ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو فیصلہ آج امداد کے بدلے جبراً کیا گیا ہے، اگر وہی ۳ سال پہلے ملکی مفاد میں اپنی شرائط پر کرلیا جاتا تو آج نہ صرف ملک کے بلکہ پورے خطے کے حالات بہت بہتر ہوتے۔ میرے خیال میں پاک فوج اپنے تجربے کی بنیاد پر یمنی جنگ کو، جس کا سمٹنا اب ناممکن معلوم ہوتا ہے، قلیل عرصے میں محدود، ٹارگٹڈ اور دقیق کاروائیوں کے ذریعے نہ صرف اختتام تک لے جاسکتی تھی بلکہ اس عظیم جانی نقصان سے بھی بچا جاسکتا تھا جو سعودیوں کہ ناتجربہ کاری اور نااہلی کے سبب بے ہنگم بمباریوں کی صورت ان 3 سالوں میں ہوا ہے۔

اس وقت ملکی مفاد سعودیوں کے ساتھ جانے میں تھا، مگر مہاتما جی کے ذاتی مفاد کے خلاف تھا کیوں کہ دھرنے ناکام ہونے بعد حکومت مستحکم تھی، تمام میکرو اکنامک انڈیکیٹرز درست سمت میں تھے اور سعودیوں کا مطالبہ ماننے سے ہمارے اپنے سب سے قابل اعتماد تزویراتی شراکت دار سے تعلقات اور مستحکم ہوتے تو یقیناً نواز حکومت اور مستحکم ہوتی۔ آج 3 سال بعد ہمارے عظیم وزیر اعظم وہی کام سعودیوں کی شرائط پر اور ان کی عطا کردہ  “امداد” کے بدلے ثالثی کے نام پر کر رہے ہیں اور قوم کے سامنے اسے “خوشخبری” کے طور پر پیش کررہے ہیں!

آپ یمن تنازعے میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے میری رائے سے بالکل اختلاف رکھ سکتے ہیں مگر اس سب تفصیل کے بعد کم از کم یہ بات بالکل واضح  ہے کہ یہ شخص صرف اپنے ذاتی مفاد کا غلام ہے اور اس کے حصول کے لیے  کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ بات ثالثی کی ہورہی ہے مگر کوئی بندہ خدا ہمیں یہ سمجھا دے کہ ایک فریق سے اس قدر مراعات حاصل کرنے کے بعد دوسرا فریق کس طرح ہماری غیر جانبداری پر یقین کرے گا؟ دوسرے یہ کہ ہمارا یمن میں کوئی اثرورسوخ ہے بھی جو ہم ثالث بن سکیں؟ حوثیوں سے ہمارے کیا سفارتی مراسم ہیں جو ہم ان کو مذاکرات کی میز تک لاسکیں گے؟ ایک افغان طالبان پر ہمارا تھوڑا بہت اثرورسوخ تھا مگر حال یہ ہے کہ اب وہ بھی ہمارے کہنے سے کوئی مذاکرات نہیں کرتے تو ایک بالکل اجنبی فریق کس بوتے ہماری بات مانے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ سب کام جو آپ کے مہاتما جی نے حکومت میں آنے کے بعد کئے ہیں، ماضی میں ان پر ہاہاکار کسی اور نے نہیں خود آپ کے مہاتما جی نے ہی مچائی تھی اور کسی کے جبر کے تحت نہیں مچائی تھی، اپنی کم علمی، بے صبری، نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے مچائی تھی۔ آج آپ قرض سے حصول پر شادیانے بجاتے پھر رہے ہیں اور اسے عظیم کامیابی قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم اس وقت بھی آپ کو سمجھاتے تھے کہ جدید دنیا میں معیشتوں کا قرضوں پر انحصار کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ قرض لے کر اگر معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اچھی بات ہے، مگر تب آپ کو مہاتما جی کے چٹائے چورن کے سبب یہ باتیں ہضم نہیں ہوتی تھیں، اور آج بھی مہاتما جی کی دی گئی گولیوں کے زیر اثر آپ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ آخری قرض نہیں جو آپ کے مہاتما جی کی حکومت نے لیا ہے۔ سو تیار رہیں،  آپ کے اگلے پانچ سال یونہی اپنے مہاتما جی کے یوٹرنز کے جواز تراشتے ہی گزرنے ہیں!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply