یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایک فارورڈ بلاک تشکیل دیا تھا اور اسے اسکیم تھری کا نام دیا۔ اپنے ہم عمر کزنز احباب سے کچھ تحفظات کی بنا پہ کچھ دن کے لیے رخصت مانگی اور ان سے پینگیں بڑھانا شروع کیں جو بڑوں کی ٹیم میں کچی گوگیاں اور اگر گیند کھیتوں میں چلی جائے تو اٹھا کر لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وہ جنہیں فیلڈنگ پہ کھڑا کیا جاتا ہے لیکن گیند یا بلے کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتے۔ جس دن ہاتھ لگ جائے عید الفطر سو کر گزار لیتے ہیں کیونکہ عید کی خوشیاں وہ پہلے ہی سمیٹ چکے ہوتے ہیں۔ جب میں نے کرکٹ والوں سے ناطے بنائے تو میرے ساتھ بھی ان گٹکوں والا حشر ہی ہوا کرتا تھا لہذا کھیلنے تو کیا دیکھنے سے بھی نفرت ہو گئی ہے۔

سکیم تھری سے مراد میری وہ  سکیم تھی جو تحفظات کی بنا پہ کھڑی کی تھی اور تھری اس لیے کہہ دیا کیونکہ اس میں میرے علاوہ دو گٹکوز بھی شامل تھے۔ اسکیم یہ تھی کہ کزنز احباب کے نخروں کی وجہ سے علیحدگی اپنانی ہے۔ یہی کیا اور چھوٹو گینگ سے سر جوڑ میٹنگ طے کی۔ میٹنگ میں طے پایا کہ ہم روزانہ کہ بنیادوں پہ ‘ہٹ ٹی’ جائیں گے اور برگرز شوارمے اندر کریں گے۔ چھوٹو ون نے آغاز اور اگلے دن دوسرے نے حصہ رسد کیا۔ تیسرے دن احمد عامر نے انٹریاں ماریں جس سے میرے دل میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔ میں نے فوراً اسے اسکیم فور کا نام دیا اور احمد کی جیب ٹھنڈی کرنے لگا۔ اگلا دن میرا تھا اور ایسے میں کزنز احباب سے تحفظات دور کرتے ہوئے ملاقاتیں بنانے کا آغاز کر دیا۔ اسکیم فور چکنا چور ہو گئی۔ کل پھر سے اسکیم تھری بننے لگی ہے۔ اس بار وہ آغاز مجھ سے کرنا چاہتے ہیں لہذا وقت کی قلت کا بہانہ بنایے جا رہا ہوں۔

اس اسکیم فور کا فائدہ یہ ہوا کہ بچوں سے قربت ہوئی۔ دو کو تو میں جانتا ہوں کہاں کھڑے ہیں البتہ تیسرے سے ملنے کا موقع ہاتھ آیا۔ میں نے اس سے جب ملاقات کی تو حقیقی معنوں میں ایک غیر معمولی صلاحیتوں والے بچے سے بات کر رہا تھا۔ غیر معمولی ہونا یہ نہیں ہوتا کہ نمبرز کتنے لیے یا کتنوں کو ٹاپ کیا۔ غیر معمولی وہ ہے جو معمولی نہیں ہوتا۔ میں بتانے جا رہا ہوں کہ وہ یعنی احمد عامر کیوں غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ باقی بچے بقیہ حصہ آئینہ مان کر عکس دیکھنے کی ضرورت خود محسوس کرنے لگیں گے۔ پرانی بات ہے کہ والد صاحب نے احمد کی تقریر سنی تھی۔ سنتے ہی جو الفاظ کہے تھے وہ یاد نہیں ہیں لیکن کچھ ایسا تھا کہ جیسے حیرانی کا اظہار کر رہے ہوں۔ ان کو اس کے اندر ایک لیڈر نظر آرہا تھا۔ لڑکا سکول میں پوزیشنز اپنے نام کر چکا ہے۔ اپنے والدین اور خصوصاً ماما کو ہر ممکن خوش دیکھنا اور رکھنے کا خواہشمند احمد مجھے بہت عزیز ہے۔ وجہ وہی ہے کہ یہ عام لڑکا نہیں ہے۔ والد صاحب اس کی آمد پہ ہمیشہ اس سے فی البدیہ تقاریر و گفتگو کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ جب بھی بولتا ایک رہنما کی آواز ہوا کرتی تھی۔

کوئی بھی انسان پرفیکشن کلیم نہیں کر سکتا۔ برے و اچھے اطوار کا اختلاط ہی انسانیت ہے۔ لیکن اچھی خصوصیات بتانے سے بچے کو حوصلہ اور اچھائی کا میدان مارنے میں موٹیویشن ملتی ہے۔ ملاقات میں ہماری گفتگو کسی نامی گرامی شخصیت کی برائی سے اچھائی کی طرف ہجرت کے بارے میں تھی۔ نتیجہ یہ اخذ کیا کہ ہر فرشتے کا ماضی ہے اور ہر شیطان کا مستقبل ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسا سوچتا ہے اور کیا کرنے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ زندگی کو لے کے اس کے تجربات سے اس نے کیا کچھ سیکھا ہے۔ تو اس کا جواب تھا کہ وہ اچھی صحبت کا متلاشی ہے۔ میں نے فٹ سے کہا کہ آج کے اس پر فتن دور میں جمعیت سے بہتر کوئی بھی اجتماعیت نہیں ہے۔ اس کا تجربہ سنتے ہوئے میں نے اپنا تجرباتی مشاہدہ بھی بتا دیا۔

کہنے لگا کہ ایک دفعہ بری صحبت مل گئی۔ نماز پڑھنے سے بھی رہا اور اچھے و برے کی تمیز بھی جاتی رہی۔ گھر والوں کی بات سننے کا دل نہیں کرتا تھا۔ یہ سب ایک طرف لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ کافی پریشانی میں مبتلا تھا۔ اس کا پریشانی میں مبتلا ہونا مجھے اسے غیر معمولی لڑکا کہنے کا پابند بنا رہا ہے۔ غلطیاں سب میں ہیں لیکن صحیح وہ جو غلطیوں پہ نادم ہے۔ کہنے لگا کہ جن دوستوں کی وجہ سے اس کی زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی انھوں نے ہی بالآخر دہوکا دیا۔ جن کے لیے وہ سب کرتا تھا وہ کچھ نہیں کر سکے جس کے نتیجے میں وہ ایک اچھا اور بہترین شخص بن گیا۔ اسے احساس ہوا اور اچھائی نے اسے مائل کر لیا۔ کہنے لگا جب سے احساس ہوا ہے تو وہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی کوشش کرنے لگا ہے اور وہ بڑوں سے ادب سے پیش آتا ہے۔ اس کامیابی پہ میں اسے غیر معمولی لڑکا تصور کرتا ہوں۔

میں نے کہا کہ تمھیں سب سے اچھا کب محسوس ہوتا ہے تو کہنے لگا کہ جب وہ دادی کے ساتھ وقت صرف کرتا ہے اور ان کے دور کے معاملات و معمولات سنتا ہے تو خوشی سے جھومنے لگتا ہے۔ ان کے زمانے کی باتیں اسے بہت مسرت بخشتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اگر خدا نے اسے طاقت دی تو وہ طاقت کا کیسے استعمال کرے گا۔ کہنے لگا کہ اسے ماؤں بہنوں کی عزت اچھالنے والے لوگ ان سے شدید نفرت دلاتے ہیں۔ کہتا ہے کہ اس کا خواب ہے کہ وہ ماؤں بہنوں کی عزت کا سوالی بنے گا۔ اگر باآسانی معاملات نہیں سدھرے تو وہ جان لگا دے گا لیکن خواب کی تعبیر ضرور ڈھونڈے گا۔

ایک اچھا انسان وہ ہے جو مددگار ہے۔ احمد عامر کہتا ہے کہ اسے دوسروں کی مدد کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے بھی اچھا لگتا ہے اور اسی لیے احمد بھی اچھا لگتا ہے۔ وہ والدین سے کچھ بھی نہیں چھپاتا۔ اسے قرآن کی تلاوت میں مزہ آتا ہے۔ کہتا ہے وہ بہت خوش ہوتا ہے جب اس کی ماما خوش ہوتی ہیں۔ کہتا ہے کہ ماما کی خوشی اس کے دل کے سکون کا باعث ہے کیونکہ انھوں نے مشکل اوقات میں اس کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ تقاریر کرنا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ہدیہ نعت پیش کرنا اسے بہت اچھا لگتا ہے۔

بہت سی دیگر باتیں بھی اس نے بتائی ہیں لیکن تحریر کی طوالت بتا رہی ہے کہ باقی کے اچھے اوصاف نہ بتائے جائیں البتہ اس نے عہد لیا ہے کہ اپنے کرموں کرنیوں سے خدا کو باور کروائے گا کہ وہ ‘عبد اللہ’ یعنی اللہ کا بندہ ہے۔ حاشر اور احمد کی بہت جمتی ہے۔ احمد سے میں نے کہا ہے کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کا باقاعدہ حصہ بن جائے اور حاشر کو ذمہ سونپا ہے کہ اسے جمعیت کی طرف راغب کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی!

Facebook Comments