باتیں امریکہ کی/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

Advertisements
julia rana solicitors

ریاستہائے متحدہ امریکہ کی وفاقی اور مقامی ریاستیں اپنے ملک اور اپنی ریاستوں میں بسنے والوں کے لیے بلا شبہ بہت اچھی ہیں۔ دنیا میں امریکہ انسانوں کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کرے لیکن اپنے ہاں لوگوں کو پرسکون رکھنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ میں چونکہ اڑتالیس برس کی عمر میں وہاں پہنچا تھا، اس لیے وہاں رائج بہت سے معمولات کے ساتھ میری ہم آہنگی ہونا مشکل تھی۔ ایسا مخمصہ صرف میرا ہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس سے ہر اس شخص کو واسطہ پڑتا ہے جو کسی دوسرے ملک، خاص طور پر ایسے ملک سے وہاں گیا ہو جہاں سرمایہ دارانہ مادہ پرستی پر مبنی نظام اپنی خالص شکل میں موجود نہیں اور جہاں کی روایات میں زرعی نظام اور اخلاقیات کی باقیات ابھی زندہ ہیں۔ کم عمری اور نوجوانی کے عہد میں امریکہ منتقل ہونے والے لوگ تو وہاں کی معاشرتی اقدار کو خود میں آسانی سے جذب کر لیتے ہیں لیکن عمر کے ایک خاص حصے کے گذر جانے کے بعد وہاں پہنچنے والا شخص لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی شخصی آزادی، قانون کی صد در صد پابندی اور بناوٹی خوش اخلاقی کو قبول نہیں کر سکتا۔
وہاں شروع شروع میں مخھے کئی بار شائبہ ہوا تھا کہ میں ان مرد و خواتین سے شاید شناسا ہوں جو میری جانب دیکھ کر دل کھول کر مسکراتے تھے اور کبھی کبھار سر کو ہلکے سے جھکاؤ کی جنبش بھی دیتے تھے مگر لمحے بھر کے بعد مجھے احساس ہوتا تھا کہ بھلا یہاں کے “گورے” مجھے کیسے جان سکتے تھے۔ کسی کو دیکھ کر مسکرانا امریکیوں کی “اخلاقیات” کا حصہ ہے۔ ناشناسا شخص ایسی مسکراہٹ سے شش و پنج میں پڑ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو نالاں بھی ہوتا ہے۔ جب میں نے ایسی بناوٹی مسکراہٹوں کا سعد سے ذکر کیا تو وہ کھلکھلا کر ہنسا تھا اور ساتھ ہی بتایا تھا کہ بعض اوقات وہ بلا وجہ مسکرانے والے شخص کو ڈانٹ کر پوچھ لیتا تھا،” تمہارا کوئی مسئلہ ہے کیا؟ کیا میں تمہیں کوئی بندر وندر دکھائی پڑتا ہوں؟”۔
پڑھنے والے کو یہ بات غالبا” کھٹکی ہوگی کہ حد سے بڑھی ہوئی ذاتی آزادی کیا شے ہوتی ہے اور اسے کیونکر قبول نہیں کیا جا سکتا؟ تو سنیے ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے کسی امریکی چینل پر ایک معلوماتی پروگرام دیکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بہت سی امریکی خواتین کو بلاوجہ خریداری کا جو لپکا تھا وہ درحقیقت ایک نفسیاتی عارضہ تھا جسے ” کمپلسیو بائنگ سنڈروم” نام دیا گیا تھا۔ جب میں نے یہی بات سعد کی موجودگی میں نذہت کے سامنے کی تھی تو وہ بھڑک اٹھی تھی اور مجھے غلط قرار دینے کے درپے ہو گئی تھی۔ جب وہ مجھے اور سعد دونوں کو قائل کرنے میں ناکام رہی تو اس نے جھنجھلا کر حرف ایف سے شروع ہونے والا وہ مختصر فقرہ میری جانب اچھال دیا تھا جس کا امریکی ماحول کے حساب سے ترجمہ “بھاڑ میں جاؤ” بنتا ہے لیکن اس کا لغوی مطلب فحش ہے۔ جب ایسا فقرہ اپنے سے بڑے، مہمان اور چچا کو کہا جائے تو کہیں زیادہ معیوب ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے میں
اپنی سگی بھتیجی کو جواب میں وہی فقرہ تو کہہ نہیں سکتا تھا، جس کا شمار امریکی تعزیرات میں نہیں ہوتا چنانچہ میں نے چیخ کر اسے “بدتمیز”کہا تھا اور میرا ہاتھ بلند ہو گیا تھا جسے سعد نے ہوا میں ہی اچک کر کہا تھا،” نہ نہ تھپڑ مت مارنا، یہ تو بہت مشکل قانونی معاملہ بن سکتا ہے”۔ جی ہاں امریکہ میں گالی کے جواب میں گالی دینا، چیخنے کے جواب میں چیخنا کوئی بری یا بڑی بات نہیں مگر ہاتھ کا استعمال منع ہے۔ خیر جب نذہت کا جنون ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے معذرت کر لی تھی البتہ مجھے کان ہو گئے تھے کہ یہاں کسی کو بھی مشتعل نہیں کرنا چاہیے۔ سعد خود غصے کا تیز تھا، اس نے اتنا عرصہ امریکہ میں رپتے ہوئے یہ طریقہ نکالا تھا کہ غصے کی حالت میں الماریاں الٹ دیتا تھا، چیزیں پٹخ دیتا تھا مگر بیوی یا بچوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ اس نے ایسا ہی ایک دورہ پڑنے کے بعد جس میں اسے پرسکون کرنے کی خاطر میں نےمداخلت کرنا چاہی تھی، تنبیہہ کر دی تھی کہ ایسے موقع پر دور ہی رہنا۔ سعد بیچارے کو ایسی جھنجھلاہٹ مہنگی پڑا کرتی تھی۔ ایسا کرنے کے بعد وہ اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانے ریستوران لے جاتا تھا اور جو چیزیں ٹوٹ پھوٹ جاتی تھیں وہ نقصان علیحدہ ہوتا تھا۔
میں تیرہ دسمبر کو پہنچا تھا،جلد ہی 31 دسمبر کا دن ہو گیا تھا۔ مجھے بہت شوق تھا کہ میں ٹائم سکوائر میں روشنیوں کا گولہ نیچے آتے دیکھوں۔ اس کے لیے میں چوہدری اقبال کے ہاں نیویارک سٹی پہنچ گیا تھا جہاں میرے امریکا پہنچنے کی کسی آگے پیچھے کی تاریخ کو ماسکو سے پہنچا ہوا میرا دوست چوہدری صداقت مقیم تھا۔ میرا خیال تھا کہ عیسوی صدی کا دوسرا ہزارواں سال ختم ہوتے اور اکیسویں صدی میں داخلے کی تقریب میں شرکت کی خاطر شاید ہم سب اکٹھے جائیں گے مگر رات ہوتے تک سب کا جوش ماند پڑ چکا تھا بلکہ میزبان چوہدری اقبال تو سونے کی تیاری کرنے لگے تھے۔ میں بہت جز بز ہو رہا تھا جس کو بھانپتے ہوئے میزبان کے جواں سال بھانجے سلیمان نے کہا تھا،” چاچا جی میں تہاڈے نال چلنا واں” ہم تقریبا” ساڑھے دس ، پونے گیارہ گھر سے نکلے تھے، جب ہم ٹائم سکوائر کے انڈر گراؤنڈ سٹیشن سے نکلے تو تقریبا” ساڑھے گیارہ بج رہے تھے۔ لوگوں کا ایک اژدہام تھا جس سے ٹائم سکوائر سے وابستہ تمام سڑکیں پٹی پڑی تھیں۔ بہت کوشش کے باوجود جب رسائی کا کوئی راستہ ہاتھ نہ آیا تو میں نے اس گمان پر کہ نے سنا جاتا تھا امریکہ کی پولیس بہت خلیق ہوتی ہے، پولیس کی ایک ٹکڑی میں شامل پولیس والے سے بڑے سبھاؤ سے پوچھا تھا،”افسر، ہم میلینیم کی تقریب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟” اس نے شان بے نیازی سے کہا تھا ،” کسی بھی عمارت کی چھت پر چڑھ کر کے” اور قہقہہ لگا دیا تھا جس میں اس کا دوسرا ساتھی پولیس والا بھی شامل ہو گیا تھا۔ مجھے لگا تھا جیسے دنیا بھر کے پولیس والے چاہے جہاں کے بھی کیوں نہ ہوں ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ شاید نئے سال کی تقریب کے حوالے سے پولیس والے نے بھی کچھ چڑھا لی ہوگی، تبھی ایسا بیہودہ جواب دیا تھا۔ میلینیم کی یہ آخری رات میرے لیے بور ترین رات تھی۔ کچھ بھی دکھائی نہ دے پایا تھا ماسوائے لوگوں کے ہجوم میں کندھے سے کندھا چھلواتے ہوئے نکلنے کی تگ و دو کرنے کے۔ انڈر گراؤنڈ میں واپسی کے سفر کے دوران میں نے سلیمان سے یونہی پوچھ لیا تھا کہ اس نے امریکہ آنے کے لیے کتنے اخراجات کیے تھے؟ اس نے بتایا تھا “سولہ لاکھ روپے”۔ “اوہ ہو ہو ہو” میں نے تاسف سے کہا تھا جس پر سلیمان نے کہا تھا،”چاچا جی میں نے پیسے تقریبا” پورے کر لیے ہیں”۔ “وہ کیسے؟” میں نے تحیر سے پوچھا تھا۔ عثمان نے بتایا تھا وہ چونکہ ابھی غیز قانونی حیثیت کا حامل ہے اس لیے ہندوستانی ٹھیکیداروں کی نگرانی میں عمارتوں میں پینٹ کرنے کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ ہندوستانی ٹھیکیدار قانون کے مطابق معاوضہ نہیں دیتے مگر گیارہ ڈالر فی گھنٹہ پھر بھی مل جاتا تھا۔ وہ چونکہ ماموں کے ہاں رہتا تھا، کھانا بھی وہیں کھاتا تھا اس لیے اس کی تقریبا ساری کی ساری کمائی بچت تھی۔ زیادہ پڑھا لکھا ہونا کتنا نقصان دہ ہوتا ہے کہ آپ پینٹ کرنے کا کام بھی نہیں کر سکتے، نے ایک لمحے کے لیے سوچا تھا۔
جس دوست کے بے حد اصرار پر میں امریکہ پہنچا تھا وہ ریاست پنسلوانیا میں رہتا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس کے پاس ہو آوں۔ سعد نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے نیویارک سٹی سے “گرے ہاؤنڈ” بس پکڑنی ہوگی یا “پنسلوانیا سٹیشن سے ریل گاڑی۔ ساتھ ہی بتایا تھا کہ بس کا سفر آسان اور سستا ہوگا۔ آسان اس لیے کہ ٹکٹ مل جاتا، ٹرین بعض اوقات بھری ہوتی تھی اور ٹکٹ ملنے کا امکان کم۔ میں چوہدری اقبال کے ہاں سے فون ملانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن فون نہیں مل پا رہا تھا۔ میں نے ماسکو سے آئے ہوئے اپنے دوست صداقت سے کہا تھا کہ وہ فون ملانے کی کوشش کرے۔ اس کی کوشش سے فون مل گیا تھا۔ دوست نے سلام دعا کے بعد ریڈیو مجھے تھام دیا تھا۔ میرا دوست نذیر چوہدری مجھ سے بات کرکے خوش ہوا تھا۔ جب میں نے بتایا تھا کہ میں اسے ملنے پہنچ رہا ہوں تو اس نے ایک ایسا فقرہ کہا تھا جس کی مجھے اس سے توقع نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا،”یار اکیلے ہی آنا، کسی اور دوست کو ساتھ مت لانا”۔ میں اپنے ماسکو والے دوست سے پہلے ہی بات کر چکا تھا کہ اکٹھے چلتے ہیں۔ مجھے خجل ہو کر اپنے دوست کو اس کی کہی بات بتانی پڑی تھی۔ دوست نے برا منائے بغیر کہا تھا، “آپ جائیں لیکن ایک بات سن لیں کہ آپ کا یہ دوست کوئی اچھا آدمی نہیں”۔
یہ دوست جو دوسرے دوست کے مطابق “اچھا آدمی” نہیں تھا، میری نوجوانی کے عہد میں مجھے ایک ایسی بس میں ملا تھا جو ملتان سے جوشیلے نوجوانوں کو لے کر منٹو پارک لاہور میں بھٹو کا جلسہ سنوانے لے جا رہی تھی۔ بس میں نعرے لگائے جا رہے تھے، “انقلاب، انقلاب، سوشلسٹ انقلاب” ۔ جب نعرہ لگانے والے نے انقلاب، انقلاب کہا تھا تو جواب میں میرے منہ سے بے اختیار “اسلامی انقلاب” نکل گیا تھا۔ باقی سب تو ہنسنے لگے تھے لیکن ساتھ بیٹھا ہوا لمبا تڑنگا، سیاہ رنگت والا وہ جوان شخص سنجیدہ رہا تھا جس نے موٹے موٹے شیشوں اور بھدے سیاہ فریم والی عینک لگائی ہوئی تھی۔ اس شخص کا نام نذیر چوہدری تھا جس نے سفر کے دوران مجھے سوشلزم کی الف بے سے آگاہ کیا تھا اور پھر واپسی کے سفر کے دوران چند پوسٹر اور پمفلٹ دیے تھے۔ میں نے ہوسٹل لوٹ کر “پاؤں میں توٹی ہوئی زنجیر کے ہیولے والا” پوسٹر اپنے کمرے کے دروازے کے باہر آویزان کر دیا تھا اور کالج میں بائیں بازو کے طالبعلموں کی ایک متوازی تنظیم این ایس او کی بنیاد رکھ دی تھی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply