جامع المتفرقین/ اقتدار جاوید

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا کہا تو سچ ہے سراپا سچ۔انہوں نے ہمارے ممدوح کو جامع المتفرقین کہہ کر ان کی خدمات کو استناد بخش دی۔یہ سند کسی ڈگری کسی سرٹفیکیٹ سے کہیں بلند ہے۔پیر صاحب کے خوشہ چینوں میں تو اقبال جیسے نابغے تھے۔ہمارے ممدوح حضرت بہاؤالحق قاسمی کا اصول ِ زندگی وہی تھا جو اسلاف کا تھا اور اسلاف کی متعین کردہ راہ پر چلنے والوں کا ہے۔یہ اہل ِسلوک ہیں۔سلوک کے ساتھ ایک اور لفظ ہوتا تھا جو اس فلسفے کو مکمل نشان زد کرتا تھا۔ تفنن برطرف اب تحریر و تقریر میں مفقود ہو چلا ہے یعنی جذب و سلوک۔سلوک کے لغوی معنی پر نظر کی جائے تو اس میں برتاؤ، عمل، رویّہ (تصوّف) طلب قرب حق، فنائے بشریت اور بقائے الوہیت، حق تعالیٰ کا قرب چاہنا، بخشش و عطا، مالی مدد جیسے خزائن پوشیدہ ہیں۔اہل اللہ اہل ِدل لوگوں کا یہی وصف تھا جس نے امت وسطیٰ کو ایک لڑی میں پرویا ہوا تھا۔اسے لڑی یا تسبیح کا دھاگہ کہنا اور ماننا روا ہے۔یہی دھاگہ کہیں سے ٹوٹا ہے تو اب سارے تسبیح کے دانے ادھر ادھر ہو گئے ہیں۔ دھاگے کو جامع المتفرقین مانا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

علامہ اقبال کے مرتبے اور مقام جیسا آدمی بھی رہنمائی علم اور ہدایت کے لیے پیر مہر علی شاہ سے طلب گار ہوتے تھے۔پیر مہر علی اقبال کی رحلت سے گیارہ ماہ پہلے انتقال فرما گئے تھے۔وہ علامہ سے عمر میں بھی بڑے تھے اور علامہ ان سے عقیدت کا تعلق رکھتے تھے اور خط میں انہیں مخدوم و مکرم حضرت قبلہ کہا کرتے تھے۔اور ان سے ملاقات بلکہ زیارت کے متمنی تھے اور ملاقات نہ ہونے کو اپنی محرومی گردانتے تھے۔مجدد الف ثانی اور شیخ الاکبر کے بارے میں پیر صاحب سے رہنمائی کے طالب تھے۔ان کی رہنمائی کی بنیاد پر ہی انگلستان میں کسی تقریب کی تیاری کے لیے وہ شیخ الاکبر کی کتب کی تفصیل بھی طلب کرتے تھے۔پیر مہر علی اور مولانا بہاؤالحق اور ان جیسے اسلاف کی نشانیاں لوگ کسی مدرسے کسی یونیورسٹی کے استاد نہیں تھے۔ یہ لوگ سراپا علم تھے اور معاشرے کی تدریس اپنے کردار اپنی گفتار سے کرتے تھے۔ان کا ایک ایک قول یا گفتگو بذات خود مفتی ِوقت کا فتوی ہی ہوتا تھا۔مولانا بہاؤالحق کا شذرہ اسوہ ِاکابر اسی پیغام اسی تربیت سے بھرا ہوا ہے۔یہ خانوادے علم کے چراغ تھے اگر اقبال جیسے عظیم مفکر اور رہنما فکری راہنمائی پیر مہر علی شاہ سے حاصل کرتے تھے تو ہمارے ممدوح کے خاندان کے شاگردوں میں مجدد الف ثانی اور امیر ِشریعت سید عطااللہ شاہ بخاری جیسی شخصیات شامل تھیں۔
پیر مہر علی شاہ صاحب کا میرے قبلہ والد سے محبت کا ایک واقعہ بھی یاد آ گیا۔یہ 1935/36 کے لگ بھگ کا قصہ ہے۔ہمارے والد قبلہ کے ایک مہربان اور مشفق حضرت میراں شاہ سید مہر علی شاہ کے مرید تھے اور ان کا گولڑہ آنا جانا تھا۔ ایک دفعہ میراں شاہ نے قبلہ والد صاحب سے اپنے مرشد کی منقبت لکھوائی اور وہاں اپنا کلام کہہ کر پیش کی۔تب مہر علی شاہ صاحب کمزور ہو چکے تھے اور صاحب فراش بھی تھے۔کلام سن کر میراں شاہ کو نزدیک بلایا اور پوچھا یہ کس کا کلام ہے پہلے میراں شاہ صاحب تھوڑا سا جھینپے لیکن حوصلہ کر کے کہا کہ اپنا کلام ہے۔مہر علی شاہ ؒ نے سر کو نفی میں ہلایا اور کہا یہ کسی نوجوان آدمی کا کلام ہے۔تب انہیں ساری اصلیت بتانا پڑی۔انہوں نے کرایہ عنایت کیا اور حکم دیا اس نوجوان کو ہمارے پاس لایا جائے۔والد صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدح در تعارف مرشد پیش کی۔مہر علی شاہ ؒ نے والد قبلہ کو قریب کر کے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔
مولانا بہاؤالحق کے علمی کاموں میں ایک طویل بحث بھی شامل ہے جو ان کے اور شہرہ آفاق تصنیف زندگی کے خالق افضل حق کے درمیان ہوئی اور بعد میں اسلام اور اشتراکیت کے نام سے شائع ہوئی۔اس میں مولانا نے اسلام اور افضل حق نے اشتراکیت کے حق میں بات کی تھی مگر جب کتاب شائع ہوئی تو اس میں افضل حق کا نام نہیں تھا جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ یہ مضامین اشتراکیت کے جواب میں لکھے تھے افضل حق کا نام لکھتا تو گمان گزرتا شاید وہ اشتراکیت کے حق میں تھے چونکہ ایسا نہیں تھا لہذا مناسب نہیں تھا کہ ان کا نام لکھا جاتا۔اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھا ہوں یہی ہے کہ مذہب ہمیں کسی سے ذاتی اختلاف کو ذاتی ہی سمجھتا ہے مذہبی نہیں۔اسے مذہبی بنانا یا مذہبی بنا کر پیش کرنا کبھی اسلاف کا رویہ نہیں رہا۔مذکور ہے کہ ایک آدمی بہشتی زیور کتاب کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور ساتھ ہی بہشتی زیور کے مصنف کے پیچھے نماز پڑھنا موقوف کر دیا تو پیر مہر علی اور مولانا بہاوالحق ؒ جیسے کسی بزرگ نے سمجھایا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا ہر ہر طریقے سے روا ہے۔اس اختلاف کو مذہبی تنگ نظری کی بھینٹ مت چڑھاؤ۔یہ بزرگ کیا گئے ہمارا رویہ ہی اور ہو گیا۔وسیع المشربی اور اختلاف رائے سے صحتمندانہ علمی اختلاف ہوا ہو گیا۔یہی علمی دیانت تھی جس کی وجہ سے ہمارے ممدوح کی کاوشوں کو پیر مہر علی شاہ مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبدالماجد دریا بادی بنظر تحسین دیکھتے تھے۔ایک دفعہ کہنے لگے کہ حسرت موہانی سوشلزم کے بہت بڑے حامی تھے مگر جیل میں باقاعدہ گیارہویں کے ختم کا اہتمام کرتے تھے۔
مولانا بہاؤالحق قاسمی کا تعلق خانوادوں کی اسی لڑی سے تھا جو یونیورسٹیوں اور صدیوں سے قائم مدارس جیسے تھے وہ خانوادے اور خانوادوں کے روح رواں چلتی پھرتی دانش گاہیں تو ہوتی ہی تھیں وہ چلتی پھرتی تہذیب تھیں علم کی حلم کی تربیت کی اور ہدایت کی تہذیب۔ فقروغنا کے ماڈل قناعت ولائیت کی بادشاہی۔
یہ اسلاف سے لوگ اسلاف کی راہ پر چلنے والے کسی مسلک سے وابستہ نہیں تھے فقہی اختلافات ہونے کے باوجود فرقہ بازی سے حد درجہ دور تھے بلکہ ان کو گلدستے کی طرح باندھ لیتے تھے۔اسی لیے تو پیر مہر علی شاہؒ نے مولانا بہاؤالحق ؒ کو جامع المتفرقین کہا تھا۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply