شیو گنگا مندر،ملکانہ/محمد عظیم شاہ بخاری

قلعہ کسک، قلعہ ملوٹ اور اس کے مندروں کے بارے میں تو بیشتر لوگ جانتے ہیں لیکن اس کے قریب واقع ملکانہ مندر تاریخ کی دھول میں اب بھی گم ہیں۔ شیو گنگا کے نام سے مشہور یہ مندر کلرکہار سے ڈلوال جانے والی سڑک پہ ملوٹ اور ڈلوال کے بیچ سڑک سے کچھ اندر واقع ہیں۔

 

 

 

 

اگر آپ لاہور یا گوجرانوالا سے آ رہے ہیں تو آپ جہلم، پنڈ دادن خان، چوآسیدن شاہ، ڈلوال اور تھوہا راجگان سے ہوتے ہوئے ملکانہ تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہی سڑک آپ کو آگے ملوٹ تک لے جائے گی۔

یہ مندر سڑک کے کنارے سے کچھ اندر درختوں سے گھری پرسکون جگہ پہ ایک 300 میٹر بلند پہاڑی پہ واقع ہے جسے تین اطراف سے ایک بل کھاتے چشمے نے گھیر رکھا ہے۔ اس خوبصورت مقام پہ تازہ و شفاف پانی کا بڑا چشمہ موجود ہے جو چٹان نما پتھروں سے نکلتا ہے اور اس کے ٹھنڈے میٹھے پانی کی وجہ سے یہاں پر ارد گرد مختلف اقسام درخت ہیں جو ایک گھنے جنگل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
وادی کہون کے نیلا واہن اور نڑمی ڈھن چشموں کے بعد ملکانہ کا یہ چشمہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس علاقے میں لوکاٹ کے باغات بھی اسی چشمے سے سیراب ہوتے ہیں۔ یوں تو یہ چشمہ آج کل قدرے خشک ہے لیکن بارشوں کے بعد یہ پھر سے بہنے لگتا ہے جو اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرنے کو کافی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ان مندروں کو بدھ مت کے پیروکاروں نے تعمیر کروایا تھا جن کی ہنوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد ہندوؤں نے انہیں استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ ایک مندر مرد حضرات جبکہ دوسرا خواتین کے استعمال میں تھا۔ اسی طرح اشنان کے لیئے مرد و خواتین کے حوض بھی الگ الگ تھے۔

ملکانہ ایک بڑا گاؤں ہوا کرتا تھا جہاں ہندوؤں کی کثیر تعداد آباد تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب وہ یہاں سے ہجرت کر گئے تو سہولیات کی کمی کے باعث مسلمانوں نے بھی یہ جگہ چھوڑ دی جس کے بعد یہ جگہ مکمل ویران ہو گئی۔ ملکانہ ہندو پوری دنیا سمیت بھارتی ریاست ہریانہ میں اب بھی موجود ہیں۔ فی الحال یہاں ہندوؤں کے چھوڑے اکا دکا گھر موجود ہیں جو مندر کے بالکل پاس ہیں۔

کشمیری طرزِ تعمیر کے حامل ان مندروں میں درگا دیوی کی ایک قدیم مورتی بھی موجود تھی مگر اب اس مورتی کے بارے کوئی معلومات موجود نہیں۔ تقسیم سے پہلے ان مندروں کی مرمت کی جاتی تھی مگر اب انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دیا گیا۔ ادھر بچی کھچی کثر پاکستان میں بسنے والے خزانے کے متلاشی جنونیوں نے اس کی توڑ پھوڑ کرکہ پوری کر دی۔ نجانے آثارِ قدیمہ والوں کی نظر ان پہ کب پڑے گی۔۔۔۔؟؟؟

یوں تو ان مندروں کا طرزِ تعمیر باقیوں سے ذرا مختلف ہے لیکن چھوٹا مندر کٹاس راج کے مندروں سے مماثلت رکھتا ہے۔ دونوں مندروں میں مختلف رنگوں سے نقش و نگار بنائے گئے تھے مگر اب وہ مٹ چکے ہیں۔ بڑے مندر کی محراب اور مرکزی دروازے پر پتھروں کی مورتیاں، بیل بوٹے اور جانوروں کی شبیہیں بھی بنی ہوئی تھیں ۔

اس جگہ مندروں کے علاوہ برگد کا ایک قدیم درخت، غاریں، تالاب، آبی نالہ اور گھر بھی موجود ہیں۔
اس جگہ کی خاصیت یہاں کا سکون ہے، جسے آپ اب بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ مندر کے پیچھے چٹان پر کھڑے ہو کہ آپ کوہِ نمک کے جنگلات اور پرندوں کا نظارہ بھی کرسکتے ہیں۔

یہ پراسرار و دلکش جگہ تھوڑی سی حکومتی توجہ سے ایک تاریخی اور انتہائی خوبصورت تفریحی مقام کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

محمد عظیم شاہ بخاری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply