ایک ظلم کی کہانی کا اختتام سولہ دسمبر اکہتر میں بنگال میں ہوا۔ اور دوسری ظلم کی کہانی کا ایک باب پختون خوا میں سولہ دسمبر 2014 کو تحریر ہوا۔ دونوں کہانیاں معصوم لوگوں کے خون سے لکھی گئیں اور دونوں میں مشترک بات صرف ایک ہے کہ دونوں کہانیوں ان کے ساۓ تلے لکھی گئیں ، جن پر ہمیں مان تھا۔ جو ہمارے نگہدار تھے۔ گلزار صاحب کی ایک نظم “اجازت” سے متاثر ہو کر کھینچی گئی کچھ لکیریں۔
میرا مان تمھارے پاس پڑا ہے
وہ ہمیں لوٹا دو
میرا وہ مان لوٹا دو
ایک ملک میں ہم رہ رہے تھے
آدھے دُکھ آدھے سُکھ کے ساتھ
سُکھ تو ہم لے آئے تھے
دُکھ شاید پلٹن میں رہ گیا
وہ واپس دلوا دو
میرا وہ مان لوٹا دو
وہ تیرا اَبِھمان مگر ہمارا مان
ہمارا مان ہمیں لوٹا دو
انیس سال کے جبر کے دن
بار بار اپنے ہی علاقے فتح کرنا
کبھی اسلام کے جھوٹ موٹ کے وعدے
کبھی ہم سے جھوٹ موٹ کے شکوے
کبھی ہمارے بچوں کی جاں ستانی
کبھی نہاں ہو جانا ہمارے پیاروں کا
یاد کروا دوں
ہمیں ہمارے پیارے لوٹا دو
ہمارا مان ہمیں لوٹا دو
ایک اجازت دے دوں بس
جب ان کی تدفین کر دو
تب ہمیں بھی تہِ خاک کر دینا
ہمارا مان ہمیں لوٹا دو
ہمارے پیارے ہمیں لوٹا دو
ہمارا تم پر مان، ہمارے نِگہبان
ہمارے بچے ہمیں لوٹا دو!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں