دانتے (2) جہنمی دائرے Circles of Hell (Inferno)/احمر نعمان سیّد

پہلی قسط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں 

 

 

 

 

 

دوسری قسط

کامیڈی/طربیہ کو ایلیٹ نے دنیا کا عظیم ترین آفاقی کلام کہا، یہ شاعر کا تخیّل بھی ہے اور اس کی خود آگاہی کا سفربھی۔ قاری کو یہ مان کر طے کرنا ہے کہ جنت، جہنم مقامات نہیں، کیفیات states ہیں۔ اور یہ عاشق کے باطنی سفر کی روداد بھی ہے؛ ہمارا شاعر بہت سی چیزوں کا عاشق ہے، جیسے
۱- دانتے کو کلاسیکی آرٹ ، فنون اور شاعری سے عشق ہے،ورنہ ورجل رہنما نہ ہوتا، جیسا آغاز میں اس نے خود جو ہیروز بتائے، سینٹ پال یا اینیئس ، ان میں سے کسی کو رہبر بناتا۔
۲- دانتے کا تصورعشق، افلاطون کے سمپوزیم سے ملتا نظر آتا ہے۔

بظاہر جہنم کا سفر خواہشات اور محبتوں کا سفر ہے۔ اب آگے چلتے ہیں؛
پچھلی بار ہم نے ۹ کی اہمیت دیکھی، دانتے کی جہنم کے ۹ ہی دائرے یا طبقات ہیں اور یہ اوپر سے نیچے پاتال تک کا سفر ہے؛

دائرہ اول:؛ جہنم کا پہلا دائرہ لمبو ہے Limbo
دانتے تھک کر سو جاتا ہے، جاگتا ہے تو جہنم کے پہلے دائرہ میں ہوتا ہے، یاد رہے یہ عیسائیت کی اصطلاح ہے(ترجمہ معلوم نہیں)، شیرخوار بچے جوبپتسمہ baptism سے پہلے فوت ہوجائیں، یا (اچھے) لوگ جو کرائسٹ کی آمد سے پہلے گزر گئے; مسلم فکر نے بھی یہی تصور اٹھایا جیسے ڈاکٹررتھ فاؤ یا مدر ٹریسا کو ہمارا مذہبی طبقہ کبھی جنت میں نہیں دیکھ سکتا کیونکہ کلمہ گو نہیں تھیں؛ کیتھولک عقیدہ میں کرائسٹ کا مصلوب ہونا صرف اپنی امت کے گناہ بخشوانے کو تھا۔ یہاں کی ارواح کوہی کرائسٹ نے اپنے مصلوب ہونے کے بعد جنت بھجوایا تھا، آدم و حوا، نوح، ابراہیم، موسی، داؤد وغیرہ؛ عیسائیت میں جسے Harrowing of Hell کہتے ہیں۔ عین ممکن ہے موجودہ ارواح کی بھی کبھی بخشش ہو جائے۔
یہاں پانی پر ورجل اور دانتے چلتے نظر آتے ہیں، سبزہ ہے،اگر بیک گراؤنڈ میں آہیں اور کراہیں ماحول غمگین نہ بنا رہی ہوں تو یہ دیکھنے میں جہنم کامقام ہی نہ لگے۔ نہ ہی یہاں روایتی سزا ہے بلکہ افلاطون کی اپالوجی میں جیسا سقراط نے کہا تھا کہ موت کے بعد ممکن ہے لمبی نیند ہو یا ہو سکتا ہے ارواح بات چیت کرتی ہوں۔
دانتے عظیم شعرا ء دیکھتا ہے، اس کےرہبر و رہنما ورجل کا بھی یہی ٹھکانہ ہے۔ ورجل بتاتا ہے کہ یہاں بس امید موجود نہیں، یہ سن کر دانتے کا کلیجہ درد سے بھر جاتا ہے؛ اسے ورجل کے علاوہ پسندیدہ چار عظیم ترین شعرا ملتے ہیں،ہومر، ہوریس، لوکن، میٹامورفوسز والا اووڈ؛
ورجل سمیت پانچوں ایک دائرہ میں اکٹھا ہوکر کچھ بات کرتے ہیں اوردانتے کو شمولیت کی دعوت دیتے ہیں، یعنی بحیثیت چھٹا۔ غور کیجیے دانتےنے اب تک نئی زندگی کے عنوان سے بس ایک کتاب لکھی ہے، یکدم وہ ہومر، اینیڈ جیسے شاہکاروں کے عظیم ترین شعرا کی صف میں پہنچ گیا؛ شاعرانہ تعلی کہیں یا خود شناسی۔ خیر دانتے اپنے دیگر آئیڈیلزاور کلاسیکی لوگ بھی یہاں دیکھتا ہے، اقلیدس، طالیس، ہیراقلاطیس، سقراط، افلاطون، ارسطو، دیوجانس، ابن سینا، صلاح الدین ایوبی اور ابن رشد وغیرہ۔

دائرہ نمبر ۲: ہوس Lustful
یہاں جہنم کے داروغہ، مائنوس کا کردار ہے، متھالوجی میں اور شاید اینیڈ میں دو مائینوس تھے، ایک اچھا اور ایک بُرا، یہاں اچھے والا مائینوس ہے،مگر یہاں یہ انسان نہیں بلکہ ایک لمبی دُم والا عفریت ہے۔ ہر آنے والی روح اس سے مل کر گناہوں کا اعتراف کرتی ہے، گناہ کی سنگینی کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے، اور فیصلہ لکھتا نہیں بلکہ اعتراف سن کر روح کو اپنی دُم میں لپیٹ لیتا ہے، دُم کا ہر چکر جہنم کے دائرے کی نمائندگی کرتا ہے، یعنی دو چکر کا مطلب جہنم کے دوسرے دائرہ میں جانا ہو گا، تین کا مطلب ۳ اور ۹ کا مطلب ۹واں دائرہ۔
اسے نظم میں Minos, the sin connoisseur کہا گیا۔ دانتے کو مائنوس خبردار کرتا ہے کہ بہکاوے میں نہ آنا، یہاں دھوکا ہے۔ اور دیکھا جائے تو یہاں دانتے کی دوسری محبت نظرآتی ہے جو محبت یا عشق بذات خود ہے۔
جہنم کا ایک اور اہم تصور جسے contrapasso کہا گیا، یعنی سزا اسی گناہ جیسی ہو یا اس کے اُلٹ۔
اب یہاں جنسی محبت کے گنہ گار ہیں، نفسانی خواہش کی سزا میں جہنم پائی ہے، جیسے ہم کہتے ہیں کہ جذبات کا طوفان اٹھا یا ہوس کی آندھی میں بہہ گئے، اس تناظر میں یہاں کی سزا آندھی ہے، ایک خوفناک بگولہ جو روحوں کو گھماتا ہے۔ یہاں بابل کی معروف ملکہ سمیرامیس ہے جس نے اپنے ہی بیٹے سے شادی کی، مصری قلوپطرہ اور ٹرائے کی ہیلن نظر آتی ہیں۔
دانتے دیکھتا ہے کہ تمام ارواح بگولے میں گھومتی ہیں مگر ایک جوڑا ساتھ ساتھ ہلکی ہوا میں جیسے تیر رہا ہو۔ وہ پہچان لیتا ہے کہ یہ اسی دور کی معروف فرانچسکا ہے; دانتے اس سے بات کرنا چاہتا ہے، ورجل مشورہ دیتا ہے کہ جب یہ قریب آئیں تو انہیں اسی چیز کا واسطہ دینا جس وجہ سے یہ یہاں آئے، یا جو ان کے لیے اہم ترین تھی، یعنی محبت۔
ہَوا کا رخ ان کی طرف ہوتا ہے اورجوڑا ہَوا کے دوش  پر تیرتا قریب پہنچتا ہے، دانتے انہیں آواز دیتا ہے، فرانچسکا اسکی آواز میں چھپا درد محسوس کرتی ہے، کیونکہ وہ بھی اسی کی طرح طبقہ عاشقاں سے تعلق رکھتی ہے۔
فرانچسکا استفسار کرتی ہے کہ تم یہاں ہمیں دیکھنے آئے ہو؟ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ واقعی یہ دانتے کے سفر کی آخری منزل نہ سہی، ایک وجہ ضرورتھی۔ پھر فرانچسکا کہتی ہے کہ میں نے تمہاری آواز میں چھپا درد محسوس کیا ہے، میں خدا سے تمہاری مدد کی بھیک مانگوں گی، بتاتی ہے کہ اسے عشق (amor)نے برباد کیا۔ کہتی ہے کہ محبت طاقت ہے، اور حُسن میں وہ قوت ہے جو انسان کی آزادی چھین کر اپنے زیر اثر لے آئے۔
دانتے کو سمجھ نہیں آتی کیا کہے، مگر کہتا ہے کہ میرا سر جھک گیا، اتنا کہ ورجل کو پوچھنا پڑا” کاکا دَس کیہہ  ہویا۔۔؟” مگر زبان گنگ تھی۔ ہمت اکٹھی کرکے جواب دیتا ہے کہ اتنی میٹھی اور اچھی شئے  یعنی عشق کا یہ انجام ہوتا ہے؟ فرانچسکا سے پوچھتا ہے کہ ایسا آخر ہُوا کیسے؟ وہ جواب دیتی ہے؛ غم میں ڈوبتے وقت، خوشی کے لمحات کو یاد کرنے سے بڑا کوئی غم نہیں ہے۔
There is no greater grief than to recall a time of happiness while plunged in misery
ہم معصوم تھے، اس دن تنہا تھے جب ہم نے ایک کتاب اکٹھے پڑھنے کا فیصلہ کیا، پڑھتے ایسے مقام آتے تھے جو پڑھ کر ہمارے رنگ زرد ہو جاتے، ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ۔ اس میں پھر ایسا PG-13 سین آیا جسے پڑھ کر پاؤلو رہ نہ پایا اور اس نے میرے لب چوم لیے، بوسے سے ہم بہکتے گئے، پھرفرانچسکا الزام دیتی ہے، کوئی ایسا بدمعاش لکھاری تھا۔ یعنی اپنا قصور کتاب، مصنف اور عشق کے سر۔ پھر کہتی ہے مُنا بھائی کے بقول اس رات اَپُن دو بجے تک پیا، یعنی اس رات ہم نے پھر کتاب نہیں کھولی۔ That day we didn’t read another page.
مگر دانتے کے لیے اس میں بےشمار مسائل ہیں، ایک کہ عشق جو ایک عظیم جذبہ ہے مگر اس کی وجہ سے خود پر اختیار کھو بیٹھنا، دوسرا فرانچسکا کا غیر متوقع اعتراف جس میں الزام کسی اور کے سر دھرا جا رہا ہے۔ دانتے افسوس اور رنج سے بیہوش ہو جاتا ہے۔
شاید داروغہ مائینوس اسی جانب اشارہ دے رہا تھا کہ بہکاوؤں میں مت آنا، فرانچسکا نے یہ ذکر گول کر دیا کہ وہ پاؤلو کی بھابھی تھی، اسی رات اس کے شوہر نے ان دونوں کو حالت غیر میں دیکھ کر قتل کر دیا تھا۔ دانتے کی خودآگاہی کے لیے سبق کہ جذبات میں آ کر خود پر اختیار کھو بیٹھنا عشق میں بھی درست نہیں۔

بشرط زندگی و فرصت، جہنم میں اتر کے مزید دو تین طبقات کی تفصیل دیکھیں گے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply