اٹلی ہے دیکھنے کی چیز(قسط13)۔۔سلمیٰ اعوان

پنتھین Pantheon ، پیازہ نیوونا
ٹراسٹی ویرا Trastervera اور Testaccio

o پنتھینPantheon کے گردونواح کو اگر روم کا دل کہا جائے توغلط نہ ہوگا
o پینتھین چرچ کی وسیع وعریض گنبد دار چھت ایک حیرت انگیزعجوبہ ہے
o نیپلز کا ایڈمنڈوAdmondo تربیلا ڈیم پر کام کرنے والا انجینئر
پاکستانی محبتوں کا مقروض تھا
o اٹلی کے جنوبی علاقوں کو شکایت ہے کہ اُن کا پیسہ شمالی علاقوں کی
ترقی وترویج کے لئے استعمال ہوتا ہے اور شمالی حصوں کو بھی یہی شکایت جنوب سے ہے
o Trastevere میں قدامت کے رنگ موہ لینے والے تھے

بس میں چڑھتے ہی اپنی مہار میں نے ایزولینا کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔صُبح ناشتے کے بعد اُسے فون کیا تھا۔آواز سنتے ہی اس کی جانب سے وقت مقررہ پر پہنچنے کی تاکید تھی۔اور جب میں ٹرمینل پر کھڑی بسوں کی یکے بعد دیگرے روانگی دیکھتی تھی وہ مجھے نظر آئی تھی اور میں پُرجوش سے انداز میں اس کی طرف بڑھ گئی تھی۔
یہ کیسی پُرمسرت سی بات تھی کہ اُس نے بھی ایک خوش الحان اور خوش اطوار صحرائی ساربان کی طرح میری بڑھائی ہوئی اِس مہار کو پکڑ لیا تھا۔بیٹھنے کو جگہ بھی قریب ترین دی تھی۔یعنی اپنی اکلوتی نشست کے عین عقب میں۔

جب ذرا سی کاروباری سرگرمی سے فرصت پاتی یعنی مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے، انہیں بروشرز دینے اور مائیک پر اُن سے چند لفظوں میں بات چیت کے بعد وہ فوراً گردن گھما کر مجھے کچھ بتانے لگ جاتی۔ایک پمفلٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
”آپ کو پہلے Pantheonاُترنا ہے۔اِسے روم کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔“

میں نے اس کی اہمیت کی نوعیت جاننا چاہی تو ازولینا نے کہا۔
”اس کے اردگرد کی دنیا بڑی مسحور کن سی ہے۔ ایک جانب دریائے ٹبرTiberتو دوسری جانب یہ اپنے گرجاگھروں،اپنے پیازوں Piazzas،اپنی صدیوں پرانی عمارتوں،اپنے کوچہ و بازاروں کی قدامت و جدّت کے حسن سے لدی پھندی، لوگوں کے پُروں کو اپنی بانہوں میں سمیٹے اپنے اندر اور باہر کے راز اُن پر کھولتی ہے۔بس آپ نے ذرا آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔روم کی شہری اور دیہاتی زندگی کا دلکش امتزاج یہاں نظرآئے گا۔“
اسی دوران کسی مسافر نے اس کی توجہ چاہی تھی۔فرض شناس لڑکی کا چہرہ کیا پورا وجود جیسے مجسم ہو کر اپنے مخاطب کو سننے لگا تھا۔ مطمئن ہو کر جب وہ آگے بڑھا تب وہ میر ی جانب متوجہ ہوئی۔
”ارے ہاں۔“ دفعتاً اُسے کچھ مزید یاد آیا تھا۔
”ہمارا وہ خوبصورت، انقلابی اور اٹلی کا پہلا نوبل انعام یافتہ شاعرGiosue Carducciکہ وہ پیسا Pisa کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور بلوگناBologna میں ملازمت کرتا تھا۔ جب پہلی مرتبہ روم کی سیاحت کے لئے آیا تو بطور خاص اِسے دیکھنا گیا تھا اور بے حد متاثر ہوا تھا اس سے۔ اس کا اظہار اُس نے اپنی ایک نظم میں بھی کیا۔“
”روم کی بھلا کون سی ایسی چیز ہے جسے سراہانہ جائے ایزولینا۔ ہاں اگر ایک عظیم شاعر کو کوئی مقام اور جگہ بہت پسند آئی توبھئی پھر اس کے باکمال ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔“

سچی بات ہے رات اتنی تھکی ہوئی تھی۔ دیر بھی خاصی ہوگئی تھی کہ کوئی کتاب،کوئی بروشر،کوئی گائیڈ بک کھولنے کی ہمت نہیں پڑی۔بستر پر گری اور کہیں رومن بادشاہوں کی دُنیا میں پہنچ گئی۔
صبح تو یوں بھی بھاگ دوڑ میں پھنسی ہوئی تھی۔ ناشتے کا شیڈول بھی واجبی سا نہیں بلکہ خاصا اہم اور پیٹ کی ناک تک بھرائی سے متعلق تھا۔ اب ایسے میں کتاب کا کھلنا اور کچھ دیکھنا ممکن کب تھا؟

بس نے مرکزی شاہراہ سے ذرا آگے اُتارا۔ایزولینانے تھوڑا گائیڈ کیا تھا۔کچھ لوگ بھی اُترے تھے۔انہی کی سنگت میں قدم اٹھائے چلی جاتی تھی۔یہ اور بات تھی کہ کہ وہ رجّی پجی نظروں والے اپنے اردگرد بس ایک طائرانہ سی نگاہ پھینکتے اور آگے بڑھ جاتے۔یہاں بے چاری فقیر فقری سی جدھر جاتیں وہیں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتیں۔طرلے منتوں سے کہیں واپس بُلاتی۔
ملحقہ گلیوں میں تھوڑا چلنا پڑا۔یہ چلنا بھی کیا چلنا تھا کہ قدم رُک رُک جاتے۔
اب جس Panthoen کو دیکھنے جارہی تھی وہ تو اپنی عقبی سمت سے کوئی جنّاتی سی صورت کا جان پڑتا تھا۔ایسی بلندوبالا دیواروں والا جیسے کوئی قلعہ ہو۔ایسا پیٹ پھلائے ہوئے جیسے کوئی نو ماہ کی حاملہ ہو۔

جب پیازہ Piazzaڈیلا روٹنڈہ میں داخل ہوئی تو داہنے ہاتھ گرینایٹ کے چمکتے steps نظرآئے۔فوراً جاکر وہاں بیٹھی۔پہلے تھوڑا آرام کیا۔ پھر عمارت کے منہ متھے پر نظریں ڈالیں۔ایک جانب پستہ قامت پوڈیم پر بنے فوارّے میں خوبصورت کندہ کاری کے پیڈسٹل پر کھڑی obeliskسجی سنوری اپنے چہرے مہرے سے سو فی صدی مصری دکھتی تھی۔جو یقینا کِسی شہنشاہ کی ماردھاڑ میں ہی یہاں لائی گئی ہوگی۔کراس کا نشان بعد میں ٹانگ دیا گیا ہوگا۔
کتاب کھولی اور جانی کہ گرینائٹ کے ڈھیروں ڈھیر کورنتیئن Corinthianدراصل قدیم یونانی اور رومی طرز تعمیر کے امتزاج سے بنائے گئے کالم ہیں جن پر عمارت کھڑی کی گئی ہے۔

رومن دیوتاؤں کاگھر ہے۔یہ تو بعد میں پتہ چلا تھا کہ دو تین کا نہیں ماشاء اللہ ماشاء اللہ پورے تیرہ دیوتاؤں کا۔جیوپٹر سے شروع کریں تو جینوJuno،نیپچونNeptune، Bacchus،اپالوAppollo، ڈائیناDiana،مرکری،Mars،وینس،valcanاور Ceres۔
مزے کی بات سب یہیں رہتے تھے اور لڑتے وڑتے بالکل نہیں تھے۔ہے نا عجیب سی بات۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں مان، ایک سلطنت کو دو بادشاہ نہیں قبول۔ یہاں تو خیر سے خداؤں کی فوج پڑی تھی۔ تو بھئی اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر تاریخ نے روند مارا ہے۔
وقت چاہے صبح کا ہو،چاہے دوپہر کا یا شام کا۔سیاحوں کے پُروں کا ہونا شرط ہے۔ایسا بھریا میلہ کہ رشک آئے۔کچھ ایسا ہی لگتا تھا جیسے دنیا نے بس اٹلی کا گھیراؤ کرلیا ہے۔
”ہائے میرے ملک میں ایسا کب ہوگا؟ مجھے تو بس یہی ہو کے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کمبخت مارے لُطف اٹھانے بھی نہیں دیتے۔“
دیر بعد جب اندر جانے کیلئے اٹھی تو جان کر چہرہ کِھل اٹھا کہ یہاں کوئی ٹکٹ نہیں۔شکر میرے مولا انہوں نے بھی کوئی چیز مفت کی۔وگرنہ تو ٹکٹوں نے ہی مت مار دی تھی۔چلو اِن پیسوں سے کچھ کھانے پینے کی عیاشی کروں گی(جیسے تجھ غریبڑی کے پاس پیسے نہیں ہیں خوش کتنی ہورہی ہے؟)اندر نے طعنہ مارا تھا۔
”دیکھو بھئی مفتہ تو پھر مفتہ ہے۔قاضی جیسے بندے نے نہیں چھوڑا تھا تو میں بے چاری کِس کھیت کی مولی؟“

چونکہ یہ ایک چرچ بن گیا ہے جو اُن شہدا کے لئیے وقف ہوا جو سقوط روم کے وقت شہید ہوئے۔
اب ایک ٹولا کوئی پندرہ لوگوں کا قریب آکر کھڑا ہوا۔گائیڈ بھی ساتھ تھا۔لکچر شروع ہوگیا تھا۔میں نے بھی کان اُن کی جانب دھکیل دئیے اور آنکھوں کو بھی وہیں گاڑ دیا۔
اس کے پورٹیکو کو روم کی چھتری کہا گیا ہے۔جب اسے دیکھا تو لگاواقعی یہ ایسے ہی ٹاٹیل کی مستحق تھی کہ طوفانی قسم کی بارشوں اور آندھیوں میں جائے پنا ہ تھی۔اور جب میں اس کے کانسی کے بھاری بھرکم دروازوں سے اندر داخل ہورہی تھی تو گویا 2000سال پرانی تاریخ میں قدم رکھ رہی تھی۔
اور سچی بات ہے کہ محسوس تو یوں ہوا تھا کہ جیسے ایلس ان ونڈرلینڈ کی طرح کِسی ایسی گل و گلزار دنیا میں آگئی ہوں کہ جہاں آنکھیں جھپکنی مشکل ہوگئی ہیں۔رنگ و نور کا جہان اُبلا پڑرہا تھا۔چھت کے گنبد کی گولائی دارغیر معمولی وسعتوں کی ہر ہر موڑ اور مقام پر رنگوں کی نقاشی اور قدآدم طاقچوں میں کھڑے مجسمے کیا دل لُبھاتے تھے۔ چھت کے گول سوراخوں سے چھن چھن کرتی دھوپ پیلیں ڈالتی پھرتی تھی۔
کیسی افسانوی دنیا تھی جس میں گھومتا پھرتا ایک چھوٹا سا انسانی جہان سانس روکنے کو کافی تھا۔میں بھی پتھر کی طرح مبہوت بنی کھڑی تھی۔پھر بیٹھ گئی تھی کہ مجھے محسوس ہوا تھاکہ رُعب حُسن سے غش کھا کرگرجاؤں گی۔

میرے خیال میں اس کی تعمیراتی فنی خوبیوں پر بحث فضول ہے۔ظاہر ہے صدیوں پرانا شاہکار وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ،جلنے بجھنے اور ملیا میٹ ہونے کے مرحلوں سے دسیوؤں بار تھوڑی بیسوؤں بار گزرا ہوگا۔موجودہ رنگ تو جدتّوں کے ساتھ ہے جسے رافیل Raphaelجیسے آرٹسٹوں کے ہاتھوں نے سنوارا اور عہد جدید کے فنکاروں نے جلا دی۔
میں چھوڑتی ہوں اِس کی اندرونی ڈیزائن کاری کو کہ وہ کیسے مربعوں اور دائروں میں رقصاں ہے۔بس اس کالم کو دیکھتی ہوں جس پر قربان گاہ اور apsesہے۔تین اہم طاق اور تین اہم ملحقہ گرجے جن میں ایک میں بادشاہ وقت وکڑایمونیل Emmunuel IIاور ایک میں وہ لازوال مصور جس پر اٹلی کو ناز ہے رافیل
Raphealدفن ہیں۔میں نے فاتحہ پڑھی۔دل میں مگر ہاتھ نہیں اٹھائے۔ وکٹر ایمونیل کے لئے تو خصوصی دعا بھی کی۔
اور جب میں باہر نکلی تھی مجھے احساس ہوا تھا کہ باہر کے لیول اور عمارت کے لیول میں بہت فرق ہے۔میں قریبی میکڈونلڈ سے فش برگر لائی۔اُف لوگوں کو،نظاروں کو دیکھتے ہوئے کھانے کا اپنا ایک مزہ ہے اور میں یہ مزے لوٹ رہی تھی۔
جب ایک عجیب سی بات ہوئی۔ایک اونچے لمبے کوئی ساٹھ60 باسٹھ62 کے پیٹے (میرے خیال کے مطابق) میں ایک شخص نے قریب آکر پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟پوچھنے والا یورپی لگتا تھا۔حیرت کے چھلکاؤ سے لبریز آنکھوں سے میں نے مخاطب کو دیکھا کہ یہ سوال میرے اتنے دنوں کے قیام میں پہلی بار ہوا تھا۔
”پاکستان“۔ ہائے میرے لہجے میں پور پور شرمندگی اور خوف رچا ہوا تھا۔
”ارے۔“
مرد کی باچھیں کِھلیں۔
”آپ کے تربیلا ڈیم کی تعمیر میں میرے ہنرمند ہاتھوں کا بھی خاصا دخل ہے۔“

اب میری باچھیں کھلنے کی باری تھی۔یہ اور بات ہے کہ میرے اندر سے کہیں ایک ہوک بھی اٹھی تھی کہ اسی تربیلا ڈیم پر میراجواں سال کزن خالد علوی ہزاروں فٹ اونچی کرین سے گر کر شہید ہوا تھا۔
مسٹرایڈ منڈو کوئی چار سال پاکستان میں رہا۔چار سالہ یادوں کی لو اُس کی نیلی مائل بھوری آنکھوں میں جیسے فانوس کی طرح جگمگائی۔
”ہم کبھی ویک اینڈ اور کبھی پندرہ دن بعد اسلام آباد جایا کرتے تھے۔“
اسلام آباد کے چند ایلیٹ کلاس گھرانوں سے اُس کے مراسم تھے جن کا ذکر اس نے اِس وقت محبتوں بھرے رچاؤ سے کیا تھا۔
وہ نیپلز سے تھا۔اپنی چھوٹی سی ایک کنسٹرکشن کمپنی کا مالک تھا۔روم کِسی کام سے آیا تھا۔مجھے وہ کچھ گالڑی ٹائپ لگا تھا۔
اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میرا نیپلز آنے کا کوئی پروگرام ہے۔
میں نے اپنی اکیلے ہونے کی مجبوری اُسے بتائی۔
بڑی بے ساختہ سی دعوت تھی جو اس نے فی الفور دے ڈالی۔
”میرا گھر ہے وہاں۔میرے پاس ٹھہرئیے۔پاکستانیوں کی محبتوں کا میں مقروض ہوں۔“
اتنی خوبصورت بات۔میری آنکھیں پل بھر میں گیلی ہوگئیں۔
”ارے نیپلز بہت خوبصورت جگہ ہے۔دو باتیں تو اس کی بڑی مشہور ہیں۔پیزا اور صوفیہ لورین۔یقینا دونوں کی آپ بھی مدّاح ہوں گی۔دونوں کی جائے پیدائش نیپلز ہی تو ہے۔ اس کے رنگین پرانے شہر کا تو بس دیکھنے سے تعلق ہے۔“
اُ س نے اپنی بھوری مائل آنکھیں دائیں بائیں پھینکیں اور پھر میری طرف جھکتے ہوئے بولا۔
”بھئی بڑی پرانی تاریخ ہے اس کی بھی۔آپ لکھاری ہیں۔اُس شہر کو تو ضرور دیکھنا چاہیے۔ نیپولین کو جب شکست ہوئی تو یہ ایک خود مختار سلطنت بن گئی تھی مگر اِن رومنوں کی اجارہ داری 1861میں کھل کر سامنے آئی۔ ”اٹلی کو متحد کیا جائے۔“ اس کے بادشاہ سے لے کر دانش وروں تک سب کی ایک ہی رَٹ تھی۔
اس اتحاد کے شوروغوغا میں کِسی نے ہمارا تو سوچا ہی نہیں کہ یہ بیچارے بھی کسی گنتی شمار میں ہیں۔ اِن سے بھی کچھ پوچھ لو کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ اِن کی بھی سن لو کہ یہ کیا کہتے اور کیا چاہتے ہیں؟نتیجہ کیا ہوا ہماری تہذیب و ثقافت اور سیاسی لحاظ سے مظبوط آزاد و خودمختار سلطنت محض ایک صوبہ بن کر رہ گئی۔اس کے سارے وسائل اور پیسہ کہیں شمال کی صنعتوں کے فروغ کے لئے اور کہیں مرکز کے لئے استعمال ہونے لگا۔
اور جب میں اُسے سُنتی،دل میں ہنستی اور خود سے کہتی تھی۔

یہ ساری دنیا ایسے ہی پھنبڑ پھوسوں اور کنجرکانیوں میں اُلجھی پڑی ہے۔گھروں سے شروع ہوکر محلّوں،شہروں،صوبوں اور ملکوں تک میں یہی ہتھکنڈے اور سیاستیں کارفرما ہیں۔اللہ نے بنی نوع انسان کی سرشت ہی کچھ ایسی بنا دی ہے۔اب وہی حال ہے ناگجراتیوں سے بچو مکّار لوگ ہیں۔سیالکوٹی نام نہ لو ان کا تو۔سانپ اور سیالکوٹی میں کوئی فرق نہیں۔بس تو ہر جگہ انسانی نفسیات ایک سی ہے۔ خدا کا بس کرم ہے کہ بیچ میں ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوجاتے ہیں۔کہہ لیجئیے وہ خود پیدا کردیتا ہے۔جو بھرم،آبرو اور عزت و توقیر کے ضامن بن جاتے ہیں۔خاندانوں،شہروں اور ملکوں کے لئے۔بس یہی سرمایہ ہوتے ہیں۔
ایڈمنڈو خدا جانے کس بات پر ہنسا تھا۔ میں نے اپنی سوچوں سے نکل کر جب اُسے دیکھا۔ اُس نے کہا۔
”ارے ہاں وہ قرون وسطیٰ کا اطالوی شاعر دانتےDantجو اطالوی زبان کا باپ اور اطالوی قومیت کے اتحاد کا بڑا علم بردار تھا۔تھا تو وہ فلورنس سے پر نیپلز میں ہر جگہ سجا ہوا ہے۔یقینا بہت سے پاکستانیوں کی طرح تم بھی اُس کی بہت بڑی مدّاح ہوں گی۔“
”کیوں نہیں۔ وہ تو میں ہوں۔ تمہارے رنڈی رونے اپنی جگہ۔ مجھے اُن سے کیا۔“

کوئی گھنٹہ بھر ہم لوگوں نے باتیں کیں۔اپنا نام پتہ موبائل نمبر سب اُس نے میری ڈائری میں لکھے اور موبائل میں بھی فیڈ کر دئیے۔
اور جب میں بس کے انتظار میں تھی۔اگلے پچھلے سبق بھول کر ایک نئی سوچ میرے گرد رقصاں تھی تونیپلزکا چکر کیوں نہ لگا لیا جائے۔
ہڈیوں گوڈوں میں اُتری ہوئی تھکن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔
”کچھ خوف خدا کرو۔جو ماڑا موٹا دیکھنا ہے۔دیکھ لو۔ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی ہوس سے باہر نکل آؤ۔“
ازولینا کے مسکراتے چہرے نے اپنایت کی خوشبو میں نہال کردیا تھا۔
اس نے پوچھا تھا۔
”کیسا رہا۔لُطف آیا۔“
ظاہر ہے دونوں کا جواب مسکراہٹ اور اور کمال کی چیزیں ہیں کہنے میں ہی تھا۔

”روم کے سب سے خوبصورت سکوائر پیازہ ناوہ ناNavonaدیکھنے کے لئیے تیار ہوجائیں۔“
یہ تو سچی بات ہے۔سیاحوں کی جنت محسوس ہوئی تھی۔اس کی کشادگی،اس کا ماحول،اس کے مجسمے اور فوارے۔عمارتوں کی قدامت کا حسن اور تاریخی اہمیت۔بگھیوں میں
بیٹھے سیر کرتے منچلے اور جابجا بیٹھے کھڑے،گھومتے پھرتے سیاحوں کی ٹولیاں۔
پورا ایک گھنٹہ یہاں گزار کر واپسی کی۔بس میں بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے کہا۔
”ازولینا تم بہت پیاری سی لڑکی ہو۔مگر اب مجھے کہیں نہیں اُترنا۔اگر تھوڑا سا زبانی کلامی تعارف کرواتی جاؤ تو تمہیں دعائیں دوں گی۔“
وہ ہنسی۔ ”تھک گئی ہیں؟“
جواب میں میرے چہرے پر بکھری حسرت و یاس نے اُسے یقینا متاثر کیا ہوگا۔تبھی اس نے فی الفور کہا تھا۔
”اوکے اوکے۔گٹ ریلیکس۔“
وکٹر ایمونیل Victor Emmanual Mounment دوم کی یادگار پر اُس نے جیسے دخترانہ سا محبت بھرا اصرارکیا تھا۔
”دیکھ آئیے اِسے۔تاریخ میں بڑی اہمیت ہے اس کی۔پورا گھنٹہ ہے آپ کے پاس۔“

اُس کے ایک طرح دھکا دینے پر ہی میں اُتری تھی۔یادگار تک چلنا بھی پڑا تھا۔دوسرے سیڑھیاں بھی اتنی۔بہرحال وکٹر ایمونیل دوم اٹلی کا پہلا بادشاہ جس نے 1870میں پورے اٹلی کو متحد کرتے ہوئے اُسے ایک قومی شناخت دی۔ اِس کردار سے تو میری اب خاصی شناسائی کیا ایک طر ح کی دوستی ہوگئی تھی۔ اٹلی میں اپنے آنے کے پہلے دن مسز سمتھ کے ہاں جو مجسمے میں نے دیکھے تھے وہ اسی وکٹر اور اس کے تین ساتھیوں کے ہی تو تھے۔
”تو بھئی اسے خراج پیش کرنا توازبس ضروری ہے کہ وعدہ کیا ہوا ہے۔ یوں بھی ایسی شخصیتیں چمکتے نگینے ہوتی ہیں۔ اپنی تاریخ کو تو جگمگاتی ہیں پر دوسری قوموں اور لوگوں کی بھی سانجھی بن جاتی ہیں۔
اٹلی کے اس پہلے بادشاہ گھڑ سوار کا یہ مجسمہ دنیا کا سب سے بڑا گھڑ مجسمہ ہے۔مونچھیں دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی۔اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی ساڑھے چار پانچ فٹ سے کیا کم چوڑی ہوں گی۔گھوڑے کے سموں کی کشادگی میں بندے بیٹھ سکتے تھے۔سفید ماربل سے چمکتی یہ یادگار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔نامعلوم سپاہیوں کا مقبرہ اور ہمیشہ جلنے والا شعلہ دیکھا۔اٹلی کے دربان یہاں بھی پتھر کے مجسموں کی مانند ساکت کھڑے دِکھتے تھے۔
پتہ چلا تھا کہ یہیں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں Risorgimento تحریک اور جنگ کی پوری تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔ یقیناً دیکھنے کی چیز ہوگی مگر کیا کرتی۔ اپنی ٹانگوں کو بھی تو دیکھنا تھا۔ یوں بھی ابھی آدھا دن پڑاتھا۔

محبت و پیار کے اُن جذبات کا اظہار ممکن ہی نہیں جو میرے دل نے ازولینا کے لئیے محسوس کئیے تھے۔اجنبی دیسوں میں ملنے والے فرشتوں میں وہ اِس صنف کا سب سے بڑا
کردار تھی کہ روم کا جنوب مغربی اور جنوبی حصّہ دکھانے کا سارا کریڈٹ اُس کے کھاتے میں جاتا ہے۔میں نے تو کہیں نہ کہیں بیٹھ کر شام گال دینی تھی۔مگر یہ وہ تھی کہ جس نے دو گاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ اپنی کولیگ سلوا کو میرے بارے بتایا اور اُسے میری مدد کے لئے کہا۔
ازولینا کی دوست سلوا نے دریائے ٹبر کے ساتھ مجھے Trastevereاور Testaccioکی ہر اہم جگہ دکھائی اور معلومات سے سرشار کیا۔قرون وسطیٰ کے عکاس گاؤں کے طرز تعمیر کی جھلکیاں دیکھیں اور مندورں میں بجتی گھنٹیاں سُنیں۔ کیا حُسن تھا۔
کاش میں شاعرہ ہوتی تو نظمیں کہتی۔میں مصور ہوتی تو اُن منظروں کو پینٹ کرتی۔پیازہ سانتا ماریا اُتری۔وہاں کچھ دیر بیٹھی۔رب کے بندوں کی رنگا رنگی دیکھی۔ آئس کریم کھائی۔خود کو خوش کیا۔شکر ادا کیا کہ اس نے یہ جگہ بھی مجھے دکھائی۔

بس میں بیٹھے بیٹھے میں نے تنگ گلیوں میں چھلکتے قدامت کے جس حسن کو دیکھا۔اُس حسن کو تفصیل سے دیکھنے کے لئیے دل کیسے مچل مچل گیا۔اس کا احوال کیا سناؤں۔ دمشق یاد آیا تھا۔اس کی فراخ کشادہ گلیوں میں وہ شاندار ولاز یادآئے تھے۔وہ گھر جن کے دروازوں پر کھڑے دربانوں نے میرا اندر دیکھنے کی خواہش پر میری پاکستانیت کو احترام دیا تھا۔تعمیری حسن کے کیا رنگ تھے اُن گھروں میں۔دمشق کیسا ہوگا اب۔
ہائے ان بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں۔ یہ شام قدیم تہذیب وتمدن کا گہوراہ۔ سچی با ت ہے لگتا تو کچھ یوں ہے جیسے طبل جنگ اب اسی سرزمین پر بجے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے تباہ کن نتائج اسی خطہ زمین کو بھوگنے شاید مقدر کر دئیے ہیں۔کیا امریکہ اور برطانیہ، کیا فرانس اور کینیڈا، حتیٰ کہ ترکی بھی ہر روز یہاں میدان جنگ سجاتے ہیں۔
جنگ کے شعلے بھڑکنے میں دیرہی کتنی لگتی ہے۔ ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی ہی نہیں مان۔پہلی جنگ عظیم میں ہوا کیا تھا۔ سربیا کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہی قیامت بن گیا۔دوسری جنگ عظیم بھی جرمنی کی جانب سے پولینڈ پر حملے کی صورت میں پھوٹ پڑی۔ اب ترکی نے روسی طیارے کو مار گرایا ہے۔
آنکھیں تو بھیگ رہی تھیں۔کوئی مجھے گھسنے دے گا یہاں۔دہشت گرد کا کہہ کر حوالہ پولیس نہ ہوجاؤں گی۔ہم مسلمان آہ راندہ درگاہ۔
پروٹسٹنٹ قبرستان کا پتہ چلا تھا۔کچھ لوگ اُترے اور کچھ چڑھے تھے۔جی چاہا تھا اُتر جاؤں۔یہیں وہ کیٹس اور سیورن دفن ہیں۔یہیں شیلے بھی ہے۔دل بڑا مچلا تھا۔مگر نہیں اُتری تھی کہ جانے کتنا چلنا پڑے گا۔

سلوا نے مجھ سے پوچھا تھا۔مونٹیمرٹینیMontemartiniدیکھنے کا موڈ ہے۔میں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
”بہت خوبصورت میوزیم ہے۔چار سو کے قریب نادر ترین مجسموں والا۔“
میرے ہونٹوں پر شکستہ سی ہنسی بکھر گئی تھی۔
سلوانے مجھے تین گھنٹے کی اِس سیر کے بعد پیازہ نووینا کے پاس اُتارا جہاں سے میں ازولینا کی بس میں سوار ہوسکتی تھی۔پیازہ اس وقت شام کے حسن میں پور پور ڈوبا ہوا تھا۔بیٹھی انتظار کرتی رہی۔دو تین بسوں کے بعدازولیناکی بس میں چڑھی۔اس کا وہی مخصوص سوال تھا۔
”انجوائے کیا؟“
”وہ تو کیا مگر بیٹھے بیٹھے۔ازولینا میں تو اسی میں بڑی خوش ہوں۔میں نے اُن ہواؤں اور فضاؤں میں سانس لیا۔اُن چیزوں کا بصری دیدار کیا جنہیں میں نے کب دیکھنا تھا؟ازولینا تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟لفظ بہت تھوڑے ہیں اور چھوٹے بھی ہیں۔“
میری جذبائیت پر اُس نے میرا ہاتھ دبایا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے اندر کے احساسات کی رومیں بہنے لگا تھا۔
”میری ماں روم آنا چاہتی تھی۔نہیں آسکی۔دنوں میں چٹ پٹ ہوگئی۔ آپ کی تھوڑی سی مدد کر کے میں نے اپنے اُس جذبے کی تسکین کی ہے۔“
کل کے بارے میں پوچھا۔

ازولینا کل تو میرا واپسی کا ارادہ ہے۔ایک دن آرام کے بعد پیسا اور لوکا کے لئیے نکلنا ہے۔فلورنس بھی جانا ہے۔
پیازہ ڈل پاپلوPiazza Del Popolo پر اُترنے اور بقیہ شام وہاں گزارنے کا مشورہ مجھے ایزولینا سے ہی ملا تھا۔
”دوگھنٹے وہاں ضرور گزارنے ہیں آپ نے۔ لُطف آئے گا۔“
چھ بجے سے پہلے میں نے بس کو نہیں چھوڑا۔جتنا مزید دیکھ سکتی تھی۔دیکھتی رہی۔
اُترنے سے قبل میں نے اُس کا ماتھا چوما تھا۔اُسے خوشگوار اور پرمسرت زندگی کی دعا دی تھی۔
کہہ لیں کہ تھوڑی سی عجیب یا نرالی سی بات ہوئی۔یا انسان کے کسی انسان دوستی جذبے کا ترجمان وہ ایک خوشگوار سا لمحہ تھا کہ جب میں بس سے اُتر رہی تھی اُس نے ایک چھوٹا ساخوبصورت گفٹ پیک شاپر میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ پٹڑی پر قدم رکھتے ہی میں نے حیرت سے اُسے دیکھا وہ اپنے مسافروں کے ساتھ مصروف تھی۔
اور جب آخری مسافر اندر داخل ہونے پر خودکار دروازے بند ہوگئے۔ اُ س نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ابھی تک ایک اجنبی زمین پر ایک اجنبی انسان سے محبتوں کی یافت پر گم سُم اور حیران سی کھڑی تھی۔ اُ س کے ہاتھ ہلانے پر مسکرائی تھی اور نمی اُترتی آنکھوں سے ایک جانب بس اور دوسری جانب خود اپنے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے صرف یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ دھرتی کا سارا حُسن تو بس ایسے ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔

میری جذباتیت اور تھوڑی سی دل گرفتگی راستے کے خوبصورت منظروں نے کم کرتے کرتے ختم کر دی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور تاحد نظر جلوے ہی جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ Piazza Del Popolo سکوائر زیادہ دور نہ تھا۔ یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ گلیوں گلیوں سے وہاں جا یا جا سکتا ہے۔
سچی بات ہے ساری گلیاں چُلبلے سیاحوں سے بھری پڑی، بلند وبالا عمارتوں سے سجی ہوئیں کسی بے حد پر اسرار سی فلم کی طرح جو ہر آن نئے نئے منظر وں کو وا کرتی ہوں جیسی تھیں۔ یہاں بھی وہی حال تھا۔ میں جگہ جگہ بیٹھ جاتی۔ ابھی سورج تو بینروں پر بیٹھا تھا مگر روشنیوں نے گلیوں کو بقعہ نور بنا رکھا تھا۔ ہواؤں میں لطافت گھل گئی تھی۔
صدیوں پرانا یہ سکوائر روم کے روایتی حسن سے سجا سنورا اپنے اندرزمانوں کی تاریخ کا اثاثہ سنبھالے روم کے ماتھے کا جھومر بنا اُس کی شان بڑھانے کا باعث ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی عجیب سی سرشاری اور لطف رگ وپے میں دوڑنے لگا تھا۔ سکوائر کی وسعت، اُس کا گردونواح لوگوں کی رونق سب مسرور کن تھے۔
ایک وقت تھا بہت پرانا وقت جب یہ مسافروں کے لئے مشرقی جانب سے روم کے اندر داخل ہونے کی پہلی گزرگاہ اور پہلا راستہ اور پہلا منظر نامہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کبھی یہoval صورت کا تھا۔ہوگا کبھی۔ مگر اب تو اپنی وسعتوں کے ساتھ ساتھ عمارتوں کے حسن ترتیب، اپنے جڑواں چرچوں کے باروق ڈیزائن کی حسن کاریگری، اپنے فواروں میں سجے جانوروں کے مجسموں سے سجا سنورا قلب ونظر کو گرماتا ہے۔

اس کی بلندوبالا مصر یobeliskجسے دنیا کی نمبر دو کا قدیم ترین ہونے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ روم میں سب سے اونچی اور بلند ہونے کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ اس کی ہر سمت کسی نہ کسی انداز میں تاریخی حسن سے سجی ایک داستان سناتی ہے۔ آگسٹس 10قبل مسیح میں اسے مصر سے لا یا تھا۔
یہ Aurelian walls میں گھِرا جس کی دیواروں کے عقبی حصے اور ستون آرٹ شاہکاروں سے سجے اس کی شان دو چند کرتے ہیں۔
Obeliskکی سیڑھیوں پر من چلوں کے نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ ایک پر بیٹھ کر میں نے اپنی گردن کو بہت خم دے کر اس کی بلندی کو دیکھا۔ دس منزلہ جو کبھی رعمسیس دوم کے ٹمپل کی شان بڑھانے کی موجب تھی۔ جسے سیتی اول نے بنوایا تھا۔ مصر کے پہلے رسم الخط ہیرو گلیفی سے اس کی تین اطراف سجائیں اور اپنی تاریخ کو کندہ کاری سے محفوظ کیا۔ ہائے یہ تاریخ بھی کیسی ظالم ہے۔ مار دھاڑ، اُکھاڑ پچھاڑ کے بغیر اُسے کہیں چین ہے۔ نہیں ہے کبھی یہ رعمیس دوم کے محل کی شان بڑھائی تھی۔ آج کسی اور جگہ کسی اور کونواز رہی ہے۔
لانے کے فوراً بعداِسے سرکس میکسمس Circus Maximus میں نصب کی گئی۔ بعد میں کوئی1589 میں اس سکوائر کی شان کو دوبالا کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ تب یہاں گاڑ دیا۔

اس پیازہ کی مشرقی اور مغربی سمتوں کو حسن دینے میں اُن دو فواروں کا ذکر کتنا ضروری ہے۔ Neptune کا فوارہ اس کی مغربی سمت سے اور رومہ مشرقی جانب سے دل کو رجھانے اور آنکھوں کو لبھانے والے نظرآتے ہیں۔ پیاز ہ ڈل پاپلو کا مطلب لوگوں کا سکوائر سے ہے۔
میں نے شام کا حُسن یہاں بیٹھ کر دیکھا۔ دھوپ کی آخری کرنوں کو obeliskکی چوٹی پر سے غائب ہوتے دیکھ کر اپنے دل میں عجیب سے احساسات کا ہجوم یلغار کرتے محسوس کیا۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھی نہ ہونے کا بھی قلق تھا۔ میں اپنے جذبات شیئر ہی نہیں کر سکتی تھی۔
تاہم اس شام کا حُسن ایزولینا کے محبت بھرے تحفوں نے بھی بڑھا دیا تھا کہ چاکلیٹ ایسی مزے کی تھی۔ چھوٹی سی اس کی بائٹ اور ساتھ نٹنر۔
پھر جب دن ڈوبا اور رات کی حسینہ اپنے سیاہ بالوں کے ہرہرتار میں چمکدار موتی پروئے چھم چھم کرتی اُتری اور سارے میں اُس کا طلسم بکھر گیا۔ تو سچی بات ہے دل اُس بھر یا میلے سے اٹھنے پر مائل نہ تھاپر جسم میں اٹھتی تھکن کی لہریں لعن طعن کرتی تھیں۔
اب ٹیکسی میں اسٹیشن آگئی سوچاکہ ٹکٹ کے ٹنٹنے سے بھی نمٹ جاؤں۔ جب بکنگ آفس کھوج کرتی تھی توبھول گئی تھی کہ ایجنٹ تو یہاں جنگلی کھمبیوں کی طرح جابجا اُگے ہوئے ہیں۔ ایک نے پکڑلیا تھا۔ ساتھ لے کر مشینوں پر آگیا۔
ا نگلیوں سے ٹک ٹک۔ چند لمحوں بعد بولا۔
”ارے بھئی بڑی خوش قسمت ہیں۔ ٹکٹ سیل پیکج پر چل رہا ہے۔ 57یورو دینے ہوں گے۔“
لو بھئی خوشی سے نہال ہونے والی بات ہوگئی۔ پورے تیس یورو کی بچت۔
ابھی اس خوشی کی ساعت کو پل نہیں گزرا تھا کہ اُ س نے ہانک لگائی۔
”سوری مجھے غلطی لگی۔ یہ ستتر 77یورو کا ہے۔“

ساری خوشی موت کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ میرے یکدم کھلنے اور آنا ً فاناً مرجھا جانے والے چہرے کے دونوں روپ اُس نے دیکھے اور عجیب بونگے سے انداز میں بولا۔
”دس یورو کی تو ابھی بھی بچت ہو رہی ہے۔“
چلو خیر اب یور و مشین میں ڈالے۔ ٹکٹ نکلا۔ بقیہ پیسے نکلے۔ میں نے تین یورو اس کی ہتھیلی پر رکھے۔
اُس کی نظروں میں جیسے مجھے کھلم کھلا اِس نفرت بھرے طعنے کا عکس نظر آیا تھا۔
”بڑی کمینی عورت ہو۔“
گھبرا کرفوراًمیں نے مزید دو یورو اُ س کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔ مگر وہاں وہی رکھائی، کمینگی اور سرد مہری سی نظر آئی تو میں بھی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
”الو کا پٹھا۔ ساری بچت خود ہی ہڑپ کر جانا چاہتا ہے۔بھئی ذرا سی خوش ہونے پر تو میرا بھی حق بنتا ہے نا۔“

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments