توہینِ رحمت للعالمین۔ (سانحہِ جڑانوالہ )-محمد وقاص رشید

چشمِ تصور سے دیکھتا ہوں کہ غارِ حرا میں اس وقت کیا عالم ہو گا جب رحمان و رحیم خدا نے انسانیت کے لیے ہدایت کے سلسلہِ نبوت کی آخری ہستی کو انکا تعارف کروایا “وما ارسلنک الا رحمت للعالمین”۔ اے رسول ص ہم نے آپکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ عالمین کا لفظ ہے مسلمین نہیں۔ یاد رہے۔
اتنی بڑی ذمہ داری شانوں پر لیے خاتم النبین ص نے کوئی جگہ چھوڑی اس فلسفے کی ترویج کی ؟ کوئی ایک۔ اس سے بڑی دلیل کیا ہو کہ نبی ص ہونے کا اقرار نہ کرنے والے بھی رحمت سے انکار نہیں کر سکتے۔
” رحمت للعالمین ” کے اس فلسفے کا عرفان کچھ محدود ہو سکتا تھا کہ اب فاتح بن کر لوٹے تھے۔ حکمرانی کا تاج بھی مگر تاجِ رحمت کے آگے سر نگوں رہا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان تو ایک طرف مگر اس منادی سے انسانی تاریخ کو رحمت للعالمین کا مطلب سمجھا دیا۔ کوئی اپنے مذہب پر رہنا چاہے تو بھی بسم اللہ۔ انکی عبادت گاہوں کی حفاظت اسلام کرے گا۔
اور پھر اس فلسفے کی نام نہاد تبلیغ و ترویج کی خاطر یہ ملک بنا۔ نام نہاد ہی رہا۔ مگر متضاد کیونکر ؟ یہ کون انکے منبر پر آ بیٹھے جنکی اپنی اپنی عصبیتیں رحمت للعالمین کے اس فلسفے کو گہنانے لگیں اسے اپنے اپنے گروہی مفادات کے جامے پہنانے لگیں۔ جزباتیت کے ایندھن فروش ، عصبیت کے زہر کے بیوپاری۔ رحمت للعالمین کی آفاقیت کو تو کیا سمجھتے انکی کم ظرفی میں قدرتی انسانی وصف ، رحم ہی نہیں سما سکتا۔
آج ان ایندھن فروشوں کی لگائی ہوئی آگ دیس کے کون و مکاں میں پھیل چکی ۔ قوم تو ہم کبھی تھے ہی نہیں۔ کسی معمولی امکان کی کرن بھی یہ بجھا چکے۔ محض اپنے دو ٹکے کا ایندھن بیچنے کے لیے اس سرزمین کو جہنم بنا چکے۔
ریاست سے مطالبہ ؟ کون سی ریاست جس نے انہیں اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار میں سازشوں کے لیے جنم دیا اور خون آشام دھرنوں سے واپسی کا کرایہ تھماتے ہوئے کاندھوں پر تھپکیاں دیں۔
اگلا منظر جنت الفردوس کا ہے ۔ یہاں کئی ہرے یاقوتی تخت بچھے ہیں ۔ ان پر مخمل و کمخواب کے بستر ہیں۔ ان پر زرکون کے فانوس لٹک رہے ہیں۔ دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہیں ۔ زیتون و انجیر اور دیگر پھلوں کے خیرہ کن باغات ہیں۔ ریشم کے دبیز پردے بادِ صبا کی لہروں پر رقصاں ہیں ۔ مگر فضا سوگوار ہے
سامنے اس سر زمین کا منظر ایک پردہ سکرین پر آویزاں ہے۔ اس پر ایک ہجوم دکھائی دے رہا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں میں ڈنڈے لاٹھیاں ، کلہاڑیاں ، ماچس ، مٹی کا تیل ہے ۔ آنکھوں میں خون اترا ہوا ۔ زبانوں پر زہر میں بجھے لفظوں کے نشتر ، لبوں پر انسانی لہو کی پیاس ہے۔ اچانک انکی زبانوں سے ایک نعرہ بلند ہوتا ہے ۔ یہ نعرہ کیا ہے کہ جنت الفردوس میں عجیب منظر بپا ہو جاتا ہے۔ ریشم کے پردے تھرتھرانے لگتے ہیں ، زرکون کے فانوسوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ دودھ شہد کی نہریں گویا ساقط محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہ نعرہ ہے کیا ؟
انکی عبادت گاہوں کو مسمار کرتے ، گھروں کو جلاتے ، خدا کی ہی دوسری کتاب کو نذرِ آتش کرتے ، لوگوں کی جمع پونجیوں اور عمر بھر کی کمائیوں کو بھسم کرتے ، بے گناہ اور معصوم انسانوں کو انکے گھروں سے بھاگنے اور کھیتوں میں رات گزارنے پر مجبور کرتے انسانی لہو کی پیاسی زبانوں پر نعرہ کس کا ہے ۔ کیسے لکھوں ۔ یہاں نوکِ قلم ، نوکِ سناں بن کر دل میں پیوست ہوتی ہے ۔ روشنائی میں خونِ جگر کود کر آتا ہے۔ انسانیت کے لیے زحمت بنتے لوگوں کی زبانوں پر رحمت للعالمین کا نعرہ ہے۔
ایک تخت سے حضرت عیسی اٹھتے ہیں اور اس تخت پر پہنچتے ہیں جو اس عالم کے لیے بھی رحمت ہے۔ تختِ رحمت للعالمین۔ ان کی جانب نم آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو وہ مبارک آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہوتی ہیں۔
فرشتے خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اے پروردگار ! یہی تو ہم نے کہا تھا کہ یہ انسان زمیں پہ جا کر فساد کرے گا مگر یہ تو ہماری سوچ سے بھی زیادہ فسادی نکلا کہ یہ رحمت للعالمین کے نام پر فساد کرنے لگا۔ یہ کیسی امت ہے جو قتل کرتے ، بلوا کرتے ، گھر جلاتے ، جیتے جاگتے انسانوں کو لمحوں میں اتنی سفاکیت و بربریت سے لاشوں میں تبدیل کرتے اور پھر ان لاشوں کی بے حرمتی کرتے الغرض انسانوں کے لیے ہر طرح کی زحمت بنتے ہوئے رحمت للعالمین کا نعرہ لگاتے ہیں۔خدایا کیا در اصل یہ حقیقی توہینِ رسالت ص نہیں ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply