دیبائے حیات/ایک زندگی ایک سفر/ قمر رحیم خان

جاوید کشمیری کو اگر جاوید مسافر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔مختصر سے عرصے میں اس کے دوسفرنامے شائع ہو چکے ہیں ایک سفرنامے کو انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے سال 2020ء کے بہترین سفرنامہ کا ایوارڈ مل چکا ہے۔اب اس کا تیسرا سفرنامہ زیر طبع ہے۔ اس نے برف پوش پہاڑوں اور گل پوش وادیوں کی اس خوبصورتی سے ترجمانی کی ہے کہ اس کے قلم کو آنکھوں سے لگانے کو دل کرتا ہے۔

 

 

 

یہی وجہ ہے کہ میں اسے پہاڑوں کی زباں کہتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں۔جاویدکو یہ غم کھائے جارہاہے کہ ہمارے ہاں نثر نگاری کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ حالانکہ پروفیسرذوالفقاراحمد ساحر صاحب جیسے لوگ جہاں موجود ہوں وہاں نثر نگاری کی روایت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

جاوید ہی کی زبانی پروفیسر صاحب کا غائبانہ تعارف بلکہ تعریف مجھ تک پہنچی ۔ لیکن کبھی انہیں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔حتیٰ کہ ایک دن اس نے ‘دیبائے حیات’ کا ہدیہ عنایت کیا۔ ہلکے سُرمئی رنگ کی دھند میں لپٹے سرورق پر کوئی شخص اکیلا کہیں جا رہا ہے۔ مصنف کایہ تخیل اور آرٹسٹ کی خوبصورت اور پر تاثیر کاوش کتاب اور صاحب کتاب کا بھرپور تعارف ہے۔ ورنہ ایک استاد کی زندگی میں لکھنے کے لیے ہوتا ہی کیا ہے؟چھوٹے سکول سے بڑے سکول تک کا سفر۔ یہ کتاب ان کے بچوں کے لیے ایک ریکارڈ اور وجہ تفاخر تو ہے ہی۔ میرے لیے بھی خوشی کا باعث ہے۔ساحر صاحب نے ایک استاد کی زندگی کو قلم بند کیا ہے۔ استاد ہونا فخر کی بات سہی، استاد ہونا جبر کی بات بھی ہے۔گو اس جبر کا تذکرہ کہیں نہ مل سکا۔ ہمارے نصاب، نظام تعلیم اور معاشرے پر اس کے اثرات پر ان کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی۔ لیکن شاید بعض موقعوں پر بعض موضوعات پہ خاموشی بھی از خود ایک سوال ہوتا ہے۔

تاریخ نامی گرامی لوگوں ، حکمران طبقہ اور جنگ و جدل کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔اس میں عام آدمی کا ذکر نہیں ہے۔ ادب وہ واحد میدان ہے جس میں عام آدمی کی تاریخ پوری آب و تاب سے نہ صرف موجود ہے، بلکہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ وہی ہے جسے ادب نے بیان کیا ہے۔کہانی، افسانہ، ناول، آپ بیتی، خاکہ نگاری، طنزو مزاح ، شاعری اور وہ تمام اصناف جو ادب کا حصہ بنیں ، عام آدمی کی تاریخ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ’دیبائے حیات’ میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ استاد آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک نمایاں حیثیت رکھتاہے۔اپنے رول کے حوالے سے وہ ہر گز عام آدمی نہیں ہے۔ لیکن اس کی زندگی کم و بیش ایک عام آدمی کی جیسی ہی ہوتی ہے۔ سوجہاں بڑی بڑی شخصیات کی آپ بیتیاں لائبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں وہاں ایک عام آدمی کی آپ بیتی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ‘دیبائے حیات ’زیادہ منفرد اس لیے بھی ہے کہ اسے ایک خاص آدمی نے لکھا ہے۔ایک صاحب مطالعہ شخص ، ایک استاد، اردو کے استاد نے لکھا ہے۔ ا ،ب، ت سے شروع کر کہ ساری زندگی جس نے اردو کی ہم سفری میں گزار دی ہو ، اس کے لکھے پر کون لکھے؟ اور کیا لکھے؟یہ سوال مجھے پریشان کیے ہوئے ہے۔ نہ لکھوں تو ناقدری اور لکھوں تواپنا‘‘پول’’ کھل جاتا ہے۔

لہٰذا ادھر اُدھر کی ہانک کر اپنی حاضری لگوانے سے زیادہ اس تحریر کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ میں اکثراپنا دل پشوری کرنے کے لیے لکھتا ہوں۔ گھٹن سے نکلنے کا جب کوئی راستہ نہیں ملا توروشن دان توڑنا پڑاکہ ہمارا روشن دان بہت چھوٹا ہے۔سیدھے راستے پہ کوئی چلنے ہی نہیں دیتا۔لہٰذا معاشرتی رحجانات کا عکس آپ کو کسی نہ کسی شکل میں وہاں کی تحریروں میں ملتا ہے۔اب یہ عادت سی بن گئی ہے۔گدھے کی طرح۔ جب وہ بھوکا ہوتا ہے تو خاموشی سے پڑوسی کے کھیت میں جا گھستا ہے۔اور جونہی اس کا پیٹ بھرتا ہے، وہ ہانکنا شروع کر دیتا ہے۔ پڑوسی ڈانگ لے کر نکلتا ہے اور اس کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ لیکن گدھا ہانکنے سے باز نہیں آتا اور جب جب اس کا پیٹ بھرتا ہے، وہ ہانکتا اور مار کھاتا ہے۔میں بھی بچنے کی بہت کوشش کرتا ہوں، حتیٰ کہ اس کوشش میں میں نے ہانکنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لیکن کبھی کبھار۔

اگر میں نے سچ مچ میں ہانک دیا تو صاحب ِ کتاب نہ سہی،پروفیسر برادری ضرور ڈانگ لے کر نکلے گی۔البتہ اس بات پر مجھے کچھ گنجائش نظر آرہی ہے کہ گدھے کا پیچھا کرتے ہوئے کچھ تو انہیں اپنا خیال آئے گا۔ لیکن اندیشہ ہے کہ یہ خیال بھی کہیں خیال کی سرحد پہ ہی نہ مر جائے۔ پچھلے دنوں ایک پروفیسر صاحب نے بات چیت کے دوران جب حقارت بھرے لہجے میں کہاکہ ‘‘اوور سیز’’کشمیریوں کاآزاد کشمیر کی معیشت و معاشرت میں کوئی کردار نہیں ہے۔تو گدھا ہانکنا بھول گیا۔

لیکن صاحب ِ‘دیبائے حیات’ جیسے دیبا لوگ جہاں موجود ہوں وہاں شائستگی کو کوئی آنچ نہیں ۔یہ کتاب پڑھ کر راولاکوٹ کی ممتاز شخصیت سردار مختار خان کے لب و لہجے اور سراپے کی یاد تازہ ہوئی۔اتنی با ادب اوربالباس آپ بیتی لکھنا کمال کا لکھنا ہے ۔تلاش بسیار کے باوجود کوئی شعلہ، کوئی شرارہ ، کوئی گلاب تو درکنار کوئی چنگاری، کوئی پتی نہیں ملی۔ لیکن اس کے باوجود یہ کتاب دلچسپ ہے۔ یہ کتاب ہمارے اس کلچر کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو اب دم توڑ گیا ہے۔ہمارا تعلق اس نسل سے ہے جس نے اس قدیم طرز زندگی میں آنکھ کھولی جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ صدیوں دنیا پر رائج رہا۔کھیتی باڑی سے جڑا اور جدید ٹیکنالوجی سے ماورا یہ کلچر چاند ستاروں سے زیادہ خوبصورت ، روح پرور اور زندگی سے بھرپور تھا۔ اتنا خوبصورت کہ ہم اس کے تصور میں اپنی باقی زندگی گزار سکتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی اس آپ بیتی میں یہ کلچر تحریری شکل میں محفوظ ہو گیا ہے۔یہ ان کی بڑی خدمت ہے۔ ڈاکٹر صغیر صاحب کی ایک تصنیف ‘‘پونچھ کی تہذیب و ثقافت’’ اس ضمن میں ایک گراں قدر کام ہے۔ مگر اس کی نوعیت مختلف ہے۔ یہی تہذیب و ثقافت جب ایک آپ بیتی، کہانی یا ناول میں بیان ہوتی ہے تو اس کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس نوع کا کام ہمارے ہاں بہت ہی کم ہوا ہے۔ اس لیے ‘دیبائے حیات’ میں اس کلچر کا جتنا بھی تذکرہ ہوا ہے وہ ہمارے لیے ایک اثاثے کی حیثیت اختیا ر کر گیا ہے۔کیا بعید ہے کہ مستقبل میں یہ کام ہمارے بچے موبائل سکرینوں پر دیکھ رہے ہوں۔ اپنی شناخت اور پہچان کی بقا کے لیے اپنی ماضی کوادب کے سانچے میں ڈھالنا بہت اہم کام ہے۔

دیبائے حیات ایک زندگی کی کتھا ، ایک سفر کا حال ہے۔ آپ جتنا اسے پڑھتے جائیں گے اتنی دلچسپی بڑھتی جائے گی۔یہ کتاب آپ کو بچپن میں لے جائے گی، لڑکپن کی سیر کرائے گی، جوانی کی یادوں کو دوبالا کرے گی۔ وہ ماحول جس میں آپ پلے بڑھے اور جوان ہوئے اس میں لے جائے گی۔یہ کتاب آپ کو اس ہنگامہ خیز زندگی اور اس کی مشکلات اور پریشانیوں سے نکال کر ایسی دنیا میں لے جائے گی جسے ہم نے کھو دیا۔

کالم کی تنگ دامنی کے باعث میں مختصر سے اقتباس پر اکتفا کروں گا۔پروفیسر صاحب لکھتے ہیں،
‘‘سلیٹ پر لکھنے کے لیے سنگ مرمر کی سلاخیں دکانوں سے مل جاتیں، مگر ہر ایک کو یہ سہولت میسر نہ ہوتی۔ہم نے اکثر پیلے رنگ کے پتھروں کو رگڑ رگڑ کر سلاخوں کی شکل دی اور ا ن سے لکھنے کا کام لیا۔سوال مکمل ہو جانے کے بعد سلیٹ کو تھوک سے صاف کیا جاتا۔……ایگل پین اس زمانے میں مشہور ہوتا تھا۔ بعض اوقات کلاس میں کسی لڑکے کے پین میں سیاہی ختم ہو جاتی تو وہ دوسرے لڑکے کے پین کی نب سے اپنا نب جوڑ کر گراری چلاتا،دوسرا لڑکا اپنا پین الٹا کر کہ گراری چلاکر تھوڑی سی سیاہی باہر نکالتایوں خالی قلم والا وہ سیاہی اپنے قلم میں منتقل کر لیتا۔بعض لڑکے تو مفت خوروں کی طرح ہمیشہ دوسروں کے قلم سے سیاہی لے کر کام چلاتے’’۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذوالفقار احمد صاحب کا انداز بیاں میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ عام اور سادہ زبان میں روانی اور تسلسل کے ساتھ اپنی بات کو بیان کرنے پر انہیں ملکہ حاصل ہے۔ وہ اردو پڑھانے میں ہی نہیں لکھنے میں بھی استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔اپنے ہاں اس درجہ کے ادیب کو پا کر دلی خوشی ہوئی۔زندگی کی جدو جہد کو جو شخص دیبائے حیات کا نام دے ،اسے پڑھنا ہی کافی نہیں اسے سننا بھی ضروری ہے۔ اپنے اس اہم کام پر وہ صد ہا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے ان کا یہ سفر جاری رہے گا اور ہمیں ان کی تحریروں سیکھنے کا موقع ملتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply