گزشتہ رات کی بات ہے، تقریباً گیارہ بجے کا وقت ہو گا۔ میں ایک پُل پہ کھڑا نیچے بہتی ٹریفک کی روانی کو دیکھ رہا تھا۔ بے نام سی اداسی وجود پہ چھائی ہوئی تھی ، زندگی بے مقصد سی لگ رہی تھی اور میں اس بے مقصدیت کو گاڑیوں کی بہتی روشنیوں میں اُڑانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے لگا کچھ فاصلے پہ دو لڑکے آ کر بیٹھ گئے ہیں۔ پُل پہ لوگوں کی ہلکی پھلکی آمد و رفت جاری تھی لیکن کسی کا یہاں بیٹھنا خلافِ معمول تھا۔ حواس چوکنا ہو گئے کہ کوئی چور ڈاکو ہی نہ ہوں۔
میں چلتا ہوا ان کے پاس پہنچا تو ایک لڑکا تکلیف میں لگ رہا تھا۔ سٹریٹ لائٹ کی ہلکی سی روشنی میں بھی اس کے چہرے پہ درد کی لکیریں عیاں تھیں۔ میں نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ تو ساتھ والا بتانے لگا کہ گاڑی سے اترتے ہوئے سڑک پہ جا گرا ہے اور چوٹیں لگوا بیٹھا ہے۔
میں نے موبائل کی ٹارچ آن کر کے دیکھا تو گھٹنوں سے اس کی پینٹ پھٹی ہوئی تھی، جس میں سے رگڑ کے زخم نظر آ رہے تھے اور ان زخموں سے ہلکا سا خون رستا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بائیں طرف سے شرٹ اوپر کی تو وہاں بھی پسلی سے نیچے کافی جلد چھلی ہوئی تھی اور اچھا خاصا زخم بنا ہوا تھا۔
ان سے اپنا تعارف بطورِ ڈاکٹر کروایا اور کہا آؤ دوائی لے دیتا ہوں۔ اس نے ساتھ والے لڑکے کا سہارا لیا اور ہم آہستہ آہستہ پل سے نیچے اترنے والے راستے پہ چل دیے۔ اسے بتایا کہ سڑک پہ گرنے سے زخم لگے تو ٹیٹنس کا ٹیکہ بھی لگوانا ضروری ہوتا ہے، اس لیے ٹیکا لگوانے کو بھی تیار ہو جاؤ۔ اس نے ہائے ہائے کرتے ہوئے بادل نخواستہ اثبات میں سر ہلا کر ٹیکہ لگوانے پہ رضامندی ظاہر کر دی۔
پھر ایک دم اسے خیال آیا تو بولا ، میرے پاس تو پیسے ہی نہیں ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا میرے پاس تو ہیں نا، اس لیے بے فکر رہو۔
میڈیکل سٹور پہ پہنچے تو پہلے پایوڈین لے کر اس کے زخم کی صفائی کی ، پھر پایوڈین اس کے حوالے کرتے ہوئے زخم کی صفائی پہ لیکچر بھی دیا۔ پھر ٹیکے کی باری آئی تو اس کا دل کر رہا تھا بھاگ جائے اور ٹیکہ نہ لگوائے۔ ساتھ والے دوسرے لڑکے نے اسے باتوں سے حوصلہ دے دے کر ٹیکہ لگوانے پہ راضی کیا۔ میں ٹیکہ لگانے لگا تو بولا “آرام سے لگائیے گا ڈاکٹر صاحب”
اب بھلا سوئی جتنے آرام سے بھی چبھو لوں، اسے درد تو ہونا ہی تھا۔ اس لیے اس بات پہ اپنی ہنسی روکتے ہوئے اسے ٹیکہ لگا دیا۔ پھر میں نے پوچھ بھی لیا کہ اب زیادہ درد ٹیکے کا ہو رہا ہے یا زخم کا؟ بولا زخم کا ہی ہو رہا ہے، ٹیکے کا تو زیادہ درد نہیں ہوا
(میں نے شکر کیا کہ ڈاکٹری کا بھرم رہ گیا ہے)
پھر اسے میڈیکل سٹور سے باقی بھی ضروری دوائی لے کر دی، اس کا استعمال سمجھایا اور زخم کی صفائی کی دوبارہ تاکید کرتے ہوئے رخصت کر دیا۔ اب جو میں واپس کمرے کی طرف بڑھا تو مجھے احساس ہوا میری بے نام اداسی غائب ہو چکی ہے۔ جو زندگی بے مقصد سی لگ رہی تھی، وہ ایک دم بھلی بھلی لگنے لگی ہے۔ اب بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ مجھے وہاں ان کی مشکل حل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا یا انھیں میری مشکل حل کرنے کے لیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں