اسلام کو مولوی سے بچاو.. تبصرہ

اسلام کو مولوی سے بچاؤ۔۔۔ تبصرہ!
صاحبزادہ محمد امانت رسول۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلم دنیا میں ملا ،مولوی اور مولانا کے القاب اہل علم کے لیے اور ان کے علمی مقام کے اظہار کے لیے استعمال کئے جاتے رہے ، بہت سی علمی شخصیات کے نام سے پہلے ان میں سے کوئی لفظ استعمال ہوتا تها، جیسے مُلا جیون، مُلا صدرہ، مولوی عبدالحق، مولوی شمس الدین، مُلا جامی، مولانا روم وغیرہ۔ خصوصا برصغیر میں جب انگریز آیا اس کا تسلط اور تغلب فقط عسکری نہ تها، یہ سائنسی اور تعلیمی دور تها، انگریز کے نظام تعلیم سے تیار ہونے والے افراد زیادہ علم رکھنے والے ہوتے تهے، انہیں جدید علوم سے واقفیت حیران کن حد تک ہوتی تهی۔ ان کا معاش بهی بہتر تها کیونکہ وہ جدید تعلیم سے آراستہ ہوتے تهے۔ انگریز کی تہذیب اور تعلیم نے مسلم معاشروں کو بهی اپنی جدت اور عصریت کی بنیاد پہ اپنے سحر میں مبتلا کردیا جس سے ان کے اپنے ماحول میں درسی علوم کی اہمیت کم ہوگئی، جدید اداروں سے نکلنے والے فضلاء، ڈاکٹر اور پروفیسرز کہلانے لگے، مدارس کے فضلاء بذات خود مُلا، مولوی اور مولانا کے الفاظ اپنے لیے لکھنے سے کترانے لگے اور علامہ کا لفظ استعمال کرنے لگے (حالانکہ علامہ کا معنی بہت جاننے والا ہے۔ ایسے لفظ کا استعمال خال خال اور خاص خاص شخصیات کے لیے ہوتا تها) اس طرح آج یہ لفظ اپنی توقیر مرتبہ اور آبرو کهو بیٹھا ہے۔
ان الفاظ میں ہم مسلمان اپنے عروج و زوال کی کہانی پڑھ سکتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جو قوم تعلیم و تہذیب میں کمال پہ ہوتی ہے اور دنیا میں تعلیمی و سائنسی غلبہ حاصل کرلیتی ہے تو اسی کی وضع کردہ اصطلاحات اور عنوانات کو استعمال کرنا عزت کا باعث سمجها جاتا ہے، بدقسمتی سے مُلا اور مولوی کی اصطلاح کچھ سالوں سے ہمارے ہاں فرسودہ خیالات کے حامل افراد کے لیے استعمال ہونے لگی ہے، ذاتی طور پر میں منفی اور فرسودہ خیالات کو کسی خاص طبقے اور افراد کے لیے مخصوص خیال نہیں کرتا، میری نظر میں یہ صفات کسی فرد میں بهی پائی جاسکتی ہیں، میں نے اپنا یہی نقطہ نظر برادر عزیز رانا تنویر عالمگیر کی خدمت میں بهی پیش کیا تها، کسی خاص طبقے کو نشانہ بنانے کے نقصانات ہی ہوتے ہیں، فوائد نہیں ہوتے۔ اجتماعی اصلاح و تعمیر سے فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں.
رانا تنویر عالمگیر نے کتاب جس کا عنوان “اسلام کو مولوی سے بچاؤ” ہے، اس کی فہرست میں مُلا اور مولوی کے نام سے مختلف عنوان باندهے ہیں، ایسے عنوانات کی کتب اس طبقے کو خاصی پسند آتی ہیں جن کا مقصد ہر صورت میں مدارس و جامعات اور مساجد سے تعلق رکهنے والے افراد کو جاہل اور قدامت پسند ثابت کرنا اور انہیں جدت کا دشمن قرار دینا ہو۔ اسی طرح اگر ایک کتاب اس عنوان سے لکھ دی جائے کہ “پاکستان اور اسلام کو ملحدین سے بچاؤ” یا “اسلام کو سیکولروں سے بچاؤ” اس عنوان سے وہ طبقہ خوش ہوتا جو ہر جدید اور عصری فکر کو سازش کی عینک سے دیکهتا اور پڑهتا ہے جس کے لیے ہر نئی بات گمراہی اور ذلالت کا سبب ہے، فتویٰ جس کا دلچسپ مشغلہ ہے، جو اس سے مختلف رائے رکهے گویا وہ سیکولرازم یا تجدد کا حامی ہوتا ہے،
اس کتاب کے عنوان سے ایک منفی تاثر قائم ہوتا ہے لیکن اس کتاب کے مطالعہ سے وہ منفی تاثر زائل ہوجاتا ہے کیونکہ مصنف نے کتاب کے مواد کی تیاری میں محنت و تحقیق کا دامن نہیں چهوڑا، ممکن ہے رانا تنویر عالمگیر کی صحافتی مجبوری ہو کیونکہ کتاب کا عنوان عام فہم بلکہ کسی حد تک اشتعال انگیز ہو تو اس کتاب کو نکالنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ ان کے لیے میری ڈهیر ساری دعائیں ہیں کہ وہ اپنی اس غیر معمولی صلاحیت کو اپنے وسیع مطالعہ کے لیے وقف کریں، اپنے آپ کو ان اکائیوں میں تقسیم کرنے کی بجائے کسی عظیم کام کے لیے محنت کریں، اللہ ان کے علم و عمل میں ترقی عطا فرمائے۔ آمین!
کتاب کے چند موضوعات یہ ہیں۔
1۔اسلام۔۔دینِ حق، 2۔مذہب،سائنس اور مولوی، 3۔مولوی کی ایجادات ور مسلمان سائندان، 4۔ اسلام میں آج کے مولوی کے لیئے وعید، 5۔عالمِ دین اور مولوی میں فرق، 6۔ملاازم اور اقبال ،7۔مُلاازم سے نجات کیسے ممکن ہے اور حقیقی اسلام کیسے نافذ ہوگا۔
ماہنامہ “روح بلند” لاہور، مارچ 2017 شمارے میں شائع ہوا مضمون!

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply