کوسٹل ہائی وے اور معصوم لیویز اہلکار/سید مہدی بخاری

سپت بیچ ہنگول کا جادوئی ساحل ہے۔ کوسٹل ہائی وے کو چھوڑتے ہوئے آف روڈ بارہ کلومیٹر اندر کی طرف واقع اس ساحل کی اپنی ہی کشش ہے۔ اس کو جانے والا راستہ دلدلی ہے۔ زمین سے پانی نکلتا رہتا ہے بظاہر زمین خشک معلوم ہوتی ہے مگر کیچڑ بنا رہتا ہے۔

جیپ کے بنا آپ سپت کے ساحل پر نہیں پہنچ سکتے۔ میرے کراچی کے دوست فوٹوگرافرز عادل جدون ، ابوذر نقوی اور طلحہ نے جیپ اس راستے پر ڈال دی۔ جاتے ہوئے کیچڑ میں پھنسے مگر آدھ گھنٹے کی خواری اور کپڑے کیچڑ سے بھر کے زور لگا کر جیپ نکل تو گئی مگر ہم چاروں بھوت بن گئے۔ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لت پت اور جب کیچڑ سوکھا تو ایسا لگتا تھا جیسے چونا مٹی سے بنے بت ہوں۔

رات ساحل پر کیمپ کیا۔ صبح تصاویر لے کر واپسی ہوئی تو اب کے بار جیپ ایسی پھنسی کہ صبح سے دوپہر ہو گئی۔ چاروں مڈ باتھ لے چکے تو تھک ہار کر فیصلہ کیا کہ عادل جدون اور ابوذر نقوی پیدل چلتے کوسٹل ہائی وے تک مدد لینے جائیں گے اور میں اور طلحہ یہیں انتظار کریں گے۔پانی اور کیچر سے جیپ کا سلف اڑ گیا تھا۔ relay میں پانی گیا تو اس نے سلف اڑا دیا۔ آٹومیٹک جیپ تھی جس کا نہ سلف ڈائریکٹ ہو سکتا ہے نہ دھکا لگا کر سٹارٹ ہو سکتی تھی۔ وہ دونوں نکلے اور پھر عرصہ بیت گیا واپسی نہ ہوئی۔ شام کے ساڑھے چار بجنے کو آئے تو کیا دیکھتا ہوں کہ لیویز کی ہائی لیکس جیپ چلی آ رہی ہے۔ اس سے دو لیویز اہلکار برآمد ہوئے اور عادل بھائی۔۔ خیر لیویز کی گاڑی کے ساتھ باندھ کر اپنی گاڑی نکالی۔ میں لیویز کی گاڑی میں شفٹ ہو گیا۔

میں نے نوٹ کیا کہ لیویز اہلکار مجھے کچھ ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں حتی کہ جوس بھی پیش کر رہے ہیں اور سر سر کہہ کر میری خیریت معلوم کر رہے ہیں۔ عادل جدون ہنسے جا رہا ہے۔ مجھے کچھ شک گزرا تو میں نے اس سے الگ ہو کر پوچھا کہ کیا چکر ہے ؟ عادل کھسر پھسر کرتے میرے کان میں بولا ” مہدی بھائی مدد نہیں مل رہی تھی ہم کو۔ کوئی گاڑی رک ہی نہیں رہی تھی تو اتنے میں لیویز والوں کی گاڑی گشت پر نکلی نظر آئی۔ انہیں روکا اور ان کو کہا کہ مدد چاہیے، مگر یہ صاف مکر گئے کہ ہم گشت پر ہیں ہم نہیں جا سکتے ۔اتنے میں مجھے آئیڈیا سوجھا۔ میں نے کہا او بھائی وہاں انگریزی اخبار ڈان کا جرنلسٹ پھنسا ہوا ہے اور نامور شخصیت ہے۔ موبائل سگنلز نہیں ورنہ اس نے سی ایم کو فون لگا دینا تھا اگر کچھ ہو گیا تو تم سب کو بہت مسئلہ ہو جائے گا میڈیا پر خبر چل گئی تو پوچھ گچھ تم سب سے ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ الغرض ان کو ایسی کہانی سنائی کہ وہ فوری بھاگے بھاگے مجھے ریسکیو کرنے آئے۔

میں سن کر ہنسنے لگا ۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ لیویز کی گاڑی کا گئیر بھی خراب ہے خستہ حال گاڑی تھی ۔ گئیر پھنس گیا اور گاڑی جام ہو گئی۔ اب گئیر نکلے ہی نہ۔ وہاں گئیر سے دھینگا مشتی کرتے مزید گھنٹہ بیت گیا ۔ میرا تھکن سے سر و جسم درد کرنے لگا بُرا حال ہوا جا رہا تھا ۔بھوک کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ تھک ہار کر لیویز نے وائرلیس سیٹ پر اگلی چوکی سے مدد مانگی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو کوئی گاڑی ہی نہیں۔ لیویز اہلکار بھی پریشان ہونے لگے تو انہوں نے وہی فلم آگے سنا دی کہ مدد نہ بھیجی تو بہت مسئلہ ہو جائے گا ڈان سے بخاری صاحب ہیں بہت بڑی ہستی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اب چوکی والوں نے 140 کلومیٹر دور اورماڑہ تھانے کو اطلاع دے دی۔ لیویز انسپکٹر سمجھا کہ شاید کوئی بہت ہی بڑا بندہ پھنس گیا ہے جسے ریسکیو نہ کیا تو  میں معطل ہو جاؤں گا۔ اس نے وہاں سے گاڑی روانہ کر دی۔

اب گاڑی کے آتے آتے رات کے آٹھ بج گئے ۔ خیر گاڑی آئی تو منظر یہ تھا کہ آگے لیویز کی گاڑی کے ساتھ بیچ میں ہماری جیپ بندھی ہوئی اور ہماری کے ساتھ آخر میں پھر لیویز کی گاڑی ۔۔۔ تین گاڑیاں قطار میں کوسٹل ہائی وے پر سنسان بیابان سڑک پر چلتی جا رہی ہیں۔۔۔ بیس کلومیٹر سفر ایک گھنٹے میں طے ہوا اور لیویز کی چوکی آ گئی۔ اب چوکی پر رکے تو شکر ادا کرنے ہی لگا تھا کہ نیا مسئلہ آن کھڑا ہوا۔۔

مقامی چوکی والے چاہتے تھے کہ مجھے وہ اپنی تحویل میں لے کر آفیسرز کو مطلع کر کے شاباش لے لیں کہ ہم نے ایک بڑے نامور بندے کو ریسکیو کر لیا اور اورماڑہ تھانے والے چاہتے تھے کہ انسپکٹر صاحب کا حکم ہے کہ بخاری صاحب کو لے کر تھانے آنا ہے وہ ہمارے مہمان ہیں۔ اوڑمارہ تھانہ ایک سو بیس کلومیٹر دور مخالف سمت میں تھا۔ اب کریڈٹ لینے کی لڑائی شروع ہو گئی۔ میں اتنا تنگ آ چکا تھا کہ میرا ضبط جواب دے گیا۔ میں غصے میں چلایا “تم سب کی بھی PDS اور میری اپنی بھی PDS کہ میں کدھر پھنس گیا”۔۔ میرا غصہ دیکھ کر اہلکار پریشان ہو گئے اور بلآخر فیصلہ ہوا کہ اب گاڑی کو اوتھل لسبیلہ پہنچا کر ٹھیک کرواتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اوتھل پہنچتے رات ہو گئی تھی۔ اگلے دو روز وہیں قیام رہا کیونکہ جیپ کا پرزہ کراچی سے آنا تھا، پھر بدلا جانا تھا۔ دو راتیں اوتھل میں مقامی بلوچ سردار اکبر صاحب کے ڈیرے پر بیت گئیں۔ ہم ان کے بن بلائے مہمان تھے مگر سردار صاحب نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ستر سال کی عمر میں ایسا بلوچ ہینڈسم سردار میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ رخصت ہونے کا وقت آیا تو سردار اکبر نے ایک زندہ سالم بکرا جیپ میں رکھوانا چاہا۔ ہم نے حیران ہوتے پوچھا کہ اکبر صاحب یہ کس واسطے ؟۔ جواب آیا “ دوپہر کا وقت ہے۔ اگر کھانا کھا کر جاتے تو ٹھیک تھا وگرنہ ہماری روایات کے مطابق قریبی عزیز مہمان کو سالم بکرا دیا جاتا ہے۔ اسے کراچی جا کر ذبح کروا لینا۔ میری جانب سے یہ آپ کا ہوا”۔ بمشکل سردار صاحب کو اس بات پر منوایا کہ ہم بکرے کا کیا کریں گے اور کہاں لے جائیں گے ، اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ آگے کراچی تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply