پاکستان کے 76 سال/ابو فجر لاہوری

مملکتِ خداداد پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 76 برس ہو گئے ہیں۔ 14 اگست 1947ء کی صبح برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک نئی نوید لائی۔ مگر پہلے دن سے ہی نوزائیدہ پاکستان کیخلاف سازشوں کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ اسلام دشمن قوتوں کو پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھایا،

 

 

 

یہی وجہ ہے کہ وہ طبقے، جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے، قائداعظم کو “کافرِ اعظم” کہتے تھے، وہی بعد میں پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بننے کی دوڑ میں آن شامل ہوئے، اور آج بھی ان کی اولادیں، پاکستان میں امن کو خراب کرنے کیلئے نت نئے بہانے ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ کبھی محرم کے جلوسوں پر اعتراض، کبھی ربیع الاول کے میلادوں کو بدعت قرار دینا، کبھی مقدسات کی توہین کو آڑ بنا کر ایسے متنازع اور فرقہ وارانہ بلز اسمبلیوں میں پیش کرکے اپنی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کرنا، ان کا وطیرہ رہا ہے۔

مسلمانوں میں فروعی اختلافات آج سے نہیں ہیں، انہیں نظرانداز کرکے مشترکات پر متحد ہوا جا سکتا ہے، مگر یہ طبقہ، بضد ہے کہ صرف انہیں “مسلمان” سمجھا جائے اور ان کے علاوہ جو بھی ہیں سب “کافر” ہیں۔ آج اگر 76 برسوں بعد بھی پاکستان کا جائزہ لیں، تو ایسے لگتا ہے کہ ہم وہیں 47ء والی صورتحال میں کھڑے ہیں۔ مشترکہ ہندوستان میں ہندووں کیساتھ مسلمانوں کا معاملہ تھا، وہاں سے نکلے تو ہندووں کی جگہ تکفیریوں نے لے لی۔ آج بھی ملک میں کہیں بھی کسی سے امن کو خطرہ ہوتا ہے تو وہاں تکفیری ہی ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تعلیمی نصاب میں مداخلت کرتے ہیں، کبھی یہ توہین صحابہ کی آڑ میں ان شخصیات کو مقدس ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی ساری زندگی اسلام کی دشمنی میں گزری۔ ایسے میں اسلام پسند اور اسلام نابِ محمدی(ص) کے پیروکار کیسے سمجھوتہ کر لیں۔ امام حسینؑ نے جس یزید کی بیعت نہیں کی، آج اسی یزید کے روحانی فرزند دوبارہ وہی مطالبہ دوہرا رہے ہیں۔

پاکستان میں بالخصوص یہ لابی ضیاءالحق کے دور میں مضبوط ہوئی، اور انہوں ںے ٹھان لی کہ پاکستان کو ایران کے مقابلے میں ایک دیوبندی ریاست بنانا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے اکثریت بریلوی مکتبِ فکر کی ہے، دوسرے نمبر پر اہل تشیع آتے ہیں، مگر یہ مٹھی پر شرپسند اور تکفیری عناصر خود کو پاکستان کا مالک سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ یہ ضیاءالحق کی گیارہ سالہ حکومت کو اپنی میراث سمجھتے ہوئے، اس زعم میں ہیں کہ پاکستان میں انہی کی سوچ چلے گی، انہی کے عقائد پر عمل ہوگا۔ جبکہ ایران میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایران میں ایک قوم ہے، یہاں کئی اقوام ہیں۔ ایران میں اکثریت اہل تشیع کی ہے، جس کے باعث وہاں حکومت بھی اہل تشیع کی ہے، اس کے مقابلے میں پاکستان میں وہ ماحول ہے نہ وہ فضا، نہ وہ ملت ہے، نہ وہ قوم، تو کیسے ممکن ہے کہ مٹھی بھر تکفیری صرف یہ سوچ کر پاکستان پر قبضے کی کوشش شروع کر دیں کہ چونکہ ایران میں شیعہ حکومت ہے، اس لئے ہم پاکستان میں دیوبندی حکومت قائم کریں گے۔ جبکہ دیوبندی مکتب فکر کے پیروکاروں کی تعداد ایران کے شیعوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

ان تکفیریوں کو اس فرسوہ اور بے بنیاد سوچ سے نکلنا ہو گا۔ چور دروازوں سے متنازع بل پاس کروا کر، چالاکیاں دکھا کر، یہ نہ سمجھیں کہ وہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ وہ ضیاءالحق مر گیا، جو پاکستان کو دیوبندی سٹیٹ بنانے کا خواب دیکھتا تھا۔ یہ پاکستان اہلسنت اور اہل تشیع کی مشترکہ محنت کا نتیجہ ہے۔ آج جب پوری پاکستانی قوم اپنا یوم آزادی منا رہی ہے، تو اس موقع پر یہ عہد بھی کرنا ہوگا، کہ پاکستان کو انگریزوں اور ہندووں کے بعد اب تکفیریوں سے بھی آزاد کروانا ہوگا۔ پاکستان کی آزادی کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ جونکوں کی طرح پاکستان کا خون پینے والے ان تکفیریوں کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ان کے یہ پَر پُرزے کاٹنا ہوں گے، جن کی وجہ سے پاکستان کا امن داو پر لگا دیتے ہیں۔ پاکستان کا آئین تمام مذاہب و مکاتبِ فکر کو مکمل مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے۔ لیکن یہ چند ملاوں کا گروہ، آئین کو مانتا ہے نہ اخلاقی اقدار کا انہیں کوئی پاس ہے۔ انہیں صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کے جو عقائدِ باطلہ ہیں، پوری پاکستانی قوم انہیں عقائد پر عمل کرے۔

خوش فہمی کا شکار یہ گروہ، یاد رکھے، کہ پاکستان تکفیریوں کی جاگیر نہیں، شیعہ اور سنی کی مشترکہ میراث ہے، اور دونوں اس کی مل کر حفاظت کریں گے۔ آپ کل بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے، آپ آج بھی پاکستان کے استحکام کے مخالف ہو۔ قوم 76 برسوں میں اتنا تو جان چکی ہے کہ پاکستان کے حامی کون ہیں اور پاکستان کے دشمن و مخالف کون؟ آپ جس ڈگر پر ملک کو چلانا چاہتے ہیں وہاں یہ ریاست اسلامی نہیں رہے گی، جبکہ اسے کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور قوم اسے حقیقی اسلامی فلاحی ریاست ہی بنائے گی۔ ایسی ریاست جس میں تکفیر اور تکفیری دونوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی، بلکہ یہ ملک امن کا گہوارہ ہوگا اور امن پسندوں کا ملک ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply