پاں کستان/گل نوخیز اختر

ملک رشید صاحب میرے پرانے دوست ہیں لیکن پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ وہ 19 نومبر کو یوم آزادی مناتے ہیں اور بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔ برسوں سے وہ اِس تاریخ کو سب دوستوں کو پرتکلف کھانا دیتے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں اور جھوم جھوم جاتے ہیں۔ ہم میں سے کسی نے غور نہیں کیا کہ وہ ہر دفعہ جشن کا اہتمام 19 نومبر کو ہی کیوں کرتے ہیں کیونکہ تاریخ سے زیادہ تمام احباب کو کھانے سے غرض تھی۔ پچھلے ہفتے پہلے بار ملک صاحب نے خود یہ راز کھولا کہ وہ 19 نومبر کو دعوت کرتے ہیں۔ میں نے کیلینڈر میں پچھلے کھانوں کی تاریخیں دیکھیں تو واقعی ہر کھانا 19 نومبر کو ہی رکھا گیا تھا۔ملک صاحب سے اس کا راز پوچھا گیا تو فرمایا کہ تیس سال پہلے میری ایک بندے سے لڑائی ہوگئی تھی۔ میں نے اسے اتنا مارا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا۔ مقدمہ چلا اور چار سال کی سزا ہوگئی۔ یہ چار سال میں نے جیل میں جس طرح گذارے’میں جانندی یا میرا رب جانندا‘۔ لیکن پھر وہ وقت آیا جب 19 نومبر کو میری رہائی عمل میں آئی اور میں اُسی کے شکرانے کے طور پر 19 نومبر کو یوم آزادی مناتا ہوں۔
ہمارے محلے کی لیڈی ٹیچرمیڈم شکیلہ 6 جولائی کو یوم آزادی مناتی ہیں۔ اتنی شدید گرمی میں یوم ِ آزادی منانے کی وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ جہاں ان کی شادی ہوئی تھی وہاں ایک جلاد صفت انسان رہتا تھا جسے عرف عام میں شوہر کہتے ہیں۔ یہ صاحب میڈم شکیلہ پر روزانہ تشدد فرماتے تھے لہذا میڈم نے 6 جولائی کو اِن سے خلع لے لی۔
آزادی ہر شخص کی مختلف ہوتی ہے۔پاکستان بننے کی آزادی کی حقیقی خوشی تو اُن لوگوں کو ہوئی ہوگی جو اُس وقت زندہ تھے، جنہوں نے مصیبتیں اٹھائیں اوربالآخر ایک نئے ملک میں داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ ہم اُس آزادی کو محسوس کرنے کی نقل ہی کرسکتے ہیں البتہ آزادی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے بہت سی مثالیں موجود ہیں۔اِس شدید گرمی اور حبس میں ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو سانس لینے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔بجلی کا بل کم آجائے تو اگلا مہینہ سکون سے گذارنے کی آزادی مل جاتی ہے۔کسی چیز کو محسوس کرنے اور کروانے کا طریقہ معروف آرٹسٹ خالد عباس ڈارصاحب نے بتایا تھا، کہنے لگے کہ جب میں اپنا گھر بنا رہا تھا تو میں نے اپنے بچوں کو کہا کہ تم لوگ مزدوروں کا ساتھ دو اوراپنے اپنے کمرے کی اینٹیں اٹھا کر خود لگاؤ۔ بچوں کے منہ بن گئے کہ ہم کیوں یہ کام کریں۔ لیکن ڈار صاحب نے زبردستی ان سے کچھ اینٹیں لگوائیں۔ آج یہ بچے بڑے ہوچکے ہیں اور خود بچوں والے ہیں۔ اب جب کبھی گھر کو فروخت کرنے کی بات چلتی ہے تو بچے تڑپ اٹھتے ہیں کہ یہ گھر ہم کیسے بیچ سکتے ہیں جس کی اینٹیں لگانے میں ہم خود شامل رہے ہیں۔
جشن آزادی کے حوالے سے مارکیٹ میں ایک سے ایک جھنڈا موجود ہے، جھنڈیوں کی قطار لگی ہے، پاکستانی پرچم والی شرٹس فروخت ہورہی ہیں، بیجز، باجے، ٹوپیاں اور نت نئی اقسام کی چیزیں ہیں جنہیں لگانے یا بجانے سے جشن آزادی کا اظہار ہوتاہے لیکن وہ اذیت کہیں محسوس نہیں ہوتی جو آزاد ہونے والوں کے حصے میں آئی تھی۔ہمیں صرف جشن منانا سکھایا گیا ہے۔ 14 اگست لاکھوں انسانوں کی برسی کا دن بھی تو ہے، لیکن ان کا ذکر ہوتابھی ہے تو جذبات و احساسات سے خالی پیرائے میں۔ اصل خوشی آزادی کی ہے۔پندرہ بیس سال تک ہر خاندان میں کوئی ایسا بزرگ مل جاتا تھا جس نے پاکستان بنتے دیکھا ہوتا تھا۔ اب تو یہ تعداد بھی کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اب صرف کہانیاں رہ گئی ہیں اور سچ جھوٹ کی تصدیق کرنے والے قبروں میں جاسوئے۔جشن آزادی بھرپور طریقے سے منانے کا رواج ضیاء الحق صاحب کے دور میں پڑا تھا کہ لوگوں کا دھیان بٹا رہے۔لیکن یہ اچھی روایت تھی۔بچپن میں اسے بھرپور پذیرائی ملتے دیکھی۔ اگر آپ نے وہ دور دیکھا ہوا ہے تو آپ کو پتا ہوگا کہ بچے بچے کو ملی نغمے زبانی یاد ہوتے تھے۔ چاند میری زمیں پھول میرا وطن، جیوے جیوے پاکستان، اے دھرتی میرا سونا یار، ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح، اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں‘ زمیں کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے، تیری وادی وادی گھوموں،اے وطن پیارے وطن، یہ وطن تمہارا ہے، ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں،وطن کی مٹی گواہ رہنا، سوہنی دھرتی اللہ رکھے۔آج آپ نئی نسل سے اِن میں سے ایک بھی ملی نغمہ زبانی سن کر دیکھیں، شائد ہی کوئی ہو جسے زبانی یاد ہو۔ سکولوں کی اسمبلی میں قومی ترانا لازمی حصہ ہوتا تھا، میری اطلاعات کے مطابق زیادہ تر پرائیویٹ سکولوں میں اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا، سرکاری کا پتا نہیں۔یہ ملی نغمے جوش، ولولے اور عقیدت سے بھرپور ہوتے تھے، ان کی دھنیں اور شاعری بچے بچے کو یاد تھی۔اب آپ بچے تو کیا کسی بڑے سے بھی پورا قومی ترانا سن کر دیکھیں۔ سو میں سے 80 لوگوں کو مکمل نہیں آئے گا۔آج کتنے بچوں کو پتا ہے کہ ہمارے پرچم میں سفید رنگ کا کیا مطلب ہے؟ کس نے پہلے پرچم کی سلائی کی تھی، چاند ستارے کی سمت کس طرح ہونی چاہیے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ریڈیو اور ٹی وی پر یہ تک بتا یا جاتا تھا کہ پرچم صبح سویرے لہرانا چاہیے اور شام کی سیاہی پھیلنے سے پہلے اتار لینا چاہیے۔ پرچم اتارنے کے اپنے آداب تھے۔ایک جھنڈا برسوں چلتا تھا کیونکہ 14 اگست کے بعد پورے احترام سے مقدس اوراق کی طرح سنبھال کر، تہہ کرکے رکھ لیا جاتا تھا۔ اب جھنڈوں کی جگہ باجوں نے لے لی ہے اور لگتا ہے ہم پاکستان میں نہیں ’پاں کستان‘ میں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply