• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • بھارت: کانگریس اور گاندھی خاندان کیلئے فیصلہ کن گھڑی/افتخار گیلانی(2،آخری حصّہ)

بھارت: کانگریس اور گاندھی خاندان کیلئے فیصلہ کن گھڑی/افتخار گیلانی(2،آخری حصّہ)

یہ سبھی آئیڈیالاجیوں کا مجموعہ رہی ہے۔ اس میں بائیں بازو کے نظریات والے لیڈران جیسے جواہر لال نہرو، کرشنا مینن ، مگر کٹر دائیں بازو والے لیڈران مدن موہن مالویہ، سردار ولبھ بائی پیٹل، ڈاکٹر راجندر پرساد وغیرہ بھی شامل رہے ہیں۔ موجودہ کانگریس میں بھی اگر ایک طرف لبرل جئے رام رمیش ہے، تو دوسری طرف کٹر ہندو وادی جناردھن دیویدی بھی ہیں۔ بی جے پی کے عروج سے قبل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس، سیاسی رغبت رکھنے والے اپنے کیڈر ز کو کانگریس میں شامل کرواتی تھی۔ ہاں2003کا سیشن کانگریس کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اسی لئے تھا، کہ پہلی بار اس میں طے ہوا کہ آرایس ایس کے نظریہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات نے سیاسی لیڈروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مقابلہ کرنے کیلئے تاریخ کی مسخ شدہ کتابو ں کا از سر نو جائزہ لیکر درسی کتب کے ذریعے پھیلائے گئے زہر کو ختم کرنے کا عمل شروع کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ پارٹی نے یہ بھی تہیہ کیا کہ آرایس ایس کی طرز پر گراونڈ پر شاخیں کھولی جائینگی، جو علمی اور عملی استدلال سے فرقہ وارایت کا مقابلہ کرکے عوام کو میل جول سے رہنے کی تلقین کرینگی۔

2013میں عام انتخابات سے ایک سال قبل جے پور میں تیسرے برین اسٹارمنگ سیشن میں جہاں تاج سونیا گاندھی کے صاحبزادے راہول گاندھی کے سر پر سجایا گیا ، وہیں آئیڈیالوجی کو دفن کرکے 1998کی پوزیشن کی واپسی کی گئی۔ اس میٹنگ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کو آئیڈیالوجی سے زیادہ روزگار، اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی سے لبھایا جاسکتا ہے۔ پارٹی کی نائب صدارت کی کمان سنبھالنے کے بعد نئی دہلی میں راہول گاندھی نے اپنی رہائش گاہ پر چھوٹے بیچز میں پارٹی کو کور کرنے والے صحافیوں اور ایڈیٹروں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔ یہ گفتگو اس حد تک آف ریکارڈ ہوتی تھی، کہ اندر قلم اور کاغذ لیجانے پر بھی باپندی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ساتھی نے جب ان سے شملہ سنکلپ (عزم) کے بار ے میں اور خصوصاً آر ایس ایس کے نظریہ سے مقابلہ کرنے کے بارے میں پوچھا، تو ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کسی آئیڈیالوجی سے ٹکرانے میں یقین نہیں رکھتی ہے اور ایک سنٹرسٹ پارٹی کے بطور سبھی کو ساتھ لیکر چلنے میں یقین رکھتی ہے۔ مگر اگلے 2014کے انتخاب میں 545رکنی ایوان میں اسکی تعداد 206 سے گھٹ کر بس 44رہ گئی اور پھر 2019میں یہ تعداد صرف 52تک ہی پہنچ پائی۔

پچھلے تیرہ سالوں میں 211منتخب نمائندے ، جن میں اراکین اسمبلی و پارلیمان شامل ہیں، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ سبھی نوجوان چہرے، آر پی این سنگھ، جیوتی رادتیہ سندھیا، جیتن پرسادا اور دیگر جن کیلئے 2013کے سیشن میں نظریہ کو دفن کر دیا گیا تھا، اس وقت بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر راہول گاندھی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ان کا اخراج راہول کیلئے ذاتی نقصان تھا، کیونکہ یہ ان کے دوون بورڈنگ اسکول کے ساتھی تھے اور ان پر انہوں نے خاصا تکیہ کیا تھا۔ 2019کے انتخابات میں شکست کے بعد راہول گاندھی نے ذمہ داری قبل کرکے استعفیٰ دیا اور پارٹی نے ان کی والدہ سونیا گاندھی کو کارگذار صدر بنایا۔ چوتھا برین اسٹارمنگ سیشن اسی سال مارچ میں راجستھان کے اودے پور شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کے احیاء کا ذکر کیا گیا اورراہول گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ صدراتی انتخاب نہیں لڑیں گیااور قیادت کسی غیر گاندھی لیڈر کے سپرد کرینگے۔ وزیر اعظم مودی کی طرف سے خاندانی راج پر چوٹ کرنے اور ان کے اس ہتھیار کو کند کرنے کیلئے ایک فیملی ایک پوسٹ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی ایک فیملی سے ایک ہی فرد کو پارٹی عہدہ یا ٹکٹ دیا جائیگا۔ اسی طرح ایک آدمی ایک پوسٹ یعنی ایک لیڈر کو ایک ہی عہدہ ملے گا۔

اگراقتدارمیں آنے کی صورت میں کوئی وزیر بنتا ہے تو اسکو پارٹی پوسٹ چھوڑنا پڑیگا۔ذرائع کے مطابق یہ نکتہ زیر بحث آگیا کہ مڈل کلاس جس کی تعدار اب کل آبادی کا 50فیصد ہے، خاندانی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔ اس اجلاس میں شملہ سنکلپ کا اعادہ کرکے ایک بار پھر آر ایس ایس سے دو ہاتھ کرنے کیلئے سیکولرازم اور آئیڈیالوجی کو موضوع بنانے کا عزم کیا گیا۔ علاقائی پارٹیوں پر چوٹ کرکے بتایا گیا کہ ان کیلئے نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ موقع کی مناسبت کے حساب سے کبھی بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں ، تو کبھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھتی ہیں۔ عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراونڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرکزیت کو ختم کرکے ضلعی صدور کو بااختیار بنایا پڑے گا۔ بجائے دہلی سے پارلیمنٹ یا اسمبلی کیلئے کسی کو منڈیٹ دینے کے یہ اختیار ضلعی صدور اور کمیٹی کو دینا چاہئے اور اسی کے ساتھ ان کی باز پرس بھی ہونی چاہئے اگر ان کا چناہوا امیدوار الیکشن میں کارکردگی نہیں دکھاتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے بھی انتخابات عمل میں آنے چاہئیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا حال تو یہ ہے کہ اس کے سبھی 22اراکین پارٹی صدر کے چنے ہوئے ہیں ۔ اس کی فیصلہ سازی کی قوت کو مزید کم کرنے کیلئے 50مزید افراد کو بطور’’مدعو اراکین‘‘ بلایا جاتا ہے۔ سبھی اہم فیصلے کانگریس صدر کی صوابدید پر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ ایک بار تو خود راہول گاندھی ہی پھٹ پڑے تھے کہ اگر کانگریس صدر کو ہی فیصلہ کرنا ہے تو اس مجلس کی کیا ضرورت ہے؟ 2014میں بد ترین شکست کے بعد راہول گاندھی کو ایک سنہرا موقع ملا تھا کہ پوری طرح فلٹریشن اور تطہیر کرکے کانگریس کو غیر ضروری اور چاپلوس عناصر سے پاک و صاف کرکے اسکو ایک حقیقی جمہوری اور لبرل پارٹی کے بطور پیش کریں۔ وہ یورپ کی سیاسی پارٹیوں کی طرح حقیقی اندرونی جمہوریت کوبحال کرنے پر توجہ مرکوز کرکے پارٹی سے چاپلوسی اور طرفداری کا کلچر ختم کرسکتے تھے۔ یہ کام کسی حد تک انہوں نے یوتھ کانگریس میں کیا تھا۔ مگر نہ معلوم اس طرح کی کوئی اصلاح وہ کانگریس میں کیوں نہیں لا سکے۔ خیر اس وقت یہ پارٹی ایک بڑے امتحان سے گذر رہی ہے۔ اگلے سال تک اسکی اورگاندھی خاندان کی قسمت کا فیصلہ ہونے کا امکا ن ہے۔ کانگریس کی قسمت اور اسکے فیصلے خاصے دورس ثابت ہوسکتے ہیں اور انکا اثر نہ صرف بھارت، بلکہ پاکستان،بنگلہ دیش کی خاندانی سیاسی جماعتوں پر بھی پڑ سکتا ہے ، کیونکہ ان ملکوں میں بھی اب مڈل کلاس تیزی سے ابھر رہا ہے اوروہ سیاست میں دلچسپی لے کر ایسے لیڈروں کی تلاش میں ہے جو اس کے آس پاس نظر آسکیں اور جن کے ساتھ اسکی اپنی شناخت ہوسکے ۔ یہ طبقہ محلوں میں رہنے والے راجے مہاراجوں جیسے سیاستدانوں سے بدکتا ہے، جو انکے ساتھ رعایا جیسا برتاوکرکے دور سے ہی درشن دیتے ہیں۔ (ختم شد) روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply