پاکستانی/محمود اصغر چوہدری

میں یورپ سے پہلی دفعہ پاکستان گیا تھا ۔ مجھے ایک گاؤں جانا تھا ۔وہاں جانے کیلئے دو ویگنیں تبدیل کرنا پڑتی تھیں ۔ میں نکلا تو دوپہر کو تھا لیکن ہماری وین رستے میں خراب ہوگئی ۔ جب تک میں اپنی پہلی منزل پرپہنچا تووہاں آخری وین جا چکی تھی ۔

 

 

 

 

 

شام ہو چکی تھی ۔دسمبر کا مہینہ تھا دھند میں ہُو کا عالم تھا ۔اس گاؤں میں کوئی بس کوئی ٹیکسی کوئی رکشہ یا تانگہ وغیرہ کا نام و نشان نہیں تھا۔ چوک پر گھومتے کچھ آوارہ مزاجوں سے پوچھا تو وہ کہنے لگے جناب اس وقت تو آپ کو کچھ نہیں ملے گا ۔گاؤں میں کوئی ہوٹل وغیرہ تو ہوتے نہیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں ۔ خیر ایک بھلا مانس بولا جناب میرے پاس سائیکل ہے میں اس وقت اتنی سردی میں آپ کو ادھر چھوڑنے تو نہیں جا سکتا ۔ہاں یہ کر سکتا ہوں کہ آپ میرا سائیکل لے جائیں اور صبح واپس موڑ دیجیے گا ۔ گاؤں اتنا دور نہیں ہے ۔ میں اس آپشن پر غورہی کر رہا تھا کہ دھند میں آتی ایک ویگن نظر آئی ۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اس ویگن کو روکا ۔ ہمارے پوچھنے پر ڈرائیور نےبتایا کہ وہ اسی جانب جا رہا ہے ۔ تو وہ کہنے لگے کہ رستے میں بھائی صاحب کو اتار دیجیے گا ۔ ڈرائیور کا نام خیرو تھا اس نے مجھ سے کرائے کی کوئی بات نہیں کی بس ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا ۔ ویگن میں بس خیرو اور اس کا کنڈکٹر فل والیم میں نورجہاں کے گانے سن رہے تھے ۔
وے اک تیرا پیار مینوں ملیا ۔۔ میں دنیا تو ہو ر کی لینا ۔۔

تھوڑی دیر میں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ میں نے ان سے پوچھا کتنے پیسے ۔۔خیرو ڈرائیور بولا کوئی پیسے نہیں جناب ۔۔ ہم تو کام ختم کرکے اپنے گھر جارہے تھے تو آپ کو بٹھا لیا ۔۔ میں نے اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور کہاچلیں کرایہ نہ سمجھیں میری طرف سے چائے پی لیں۔ ۔ ڈرائیور نے غصے سے میری طرف دیکھا اور تاریخی جملہ بولا ۔۔۔ باو جی ہم ویگن چلاتے ہیں کوئی پولیس میں تھوڑا ہی ہیں، جو چائے پانی سمجھ کر رقم رکھ لیں ۔۔

گریجویشن کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ میں پاکستان پولیس میں جاؤں یا کوئی سرکاری آفیسر بن جاؤں لیکن آج جس طرح انہو ں نے سرکاری آفیسرز اور پولیس کی بے عزتی کی ۔۔ میں نے شکر کیا کہ میں سرکاری جاب میں نہیں ہوں ۔۔ میں نے بات بدلتے ہوئے کہا سوری استاد جی میرا مقصد آپ کو پیسہ دکھانا نہیں تھا بس اس وقت ،دسمبر ،سردی، دھند اور رات کے اس عالم میں آپ مجھ سے جتنا بھی کرایہ مانگ لیتے میں دینے کو تیار تھا۔۔۔

و ہ بولے صاحب جی ہم ویگن ضرور چلاتے ہیں اپنی محنت کی کماتے ہیں لیکن ہم پاکستانی ہیں دوسرے لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ وہ ان پڑھ ڈرائیور اور کنڈکٹر مجھے زندگی کا وہ سبق سکھا گئے جو شاید کسی پڑھے لکھے نے بھی نہیں سکھایا تھا۔

وقت کا پہیہ بدلا ،اور حالات کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے بھی برطانیہ میں ٹیکسی چلانی پڑی ۔ میں ایک سواری اتارنے جارہا تھا کہ بہت زوروں کی برف باری ہورہی تھی ۔ میں نے شہر سے باہر سنسان سڑک پر دیکھا کہ مخالف سمت سے ایک عورت سڑک پر پیدل چلتی جا رہی تھی ۔ ۔ میں نے اگلے شہر میں سواری اتاری اور واپس اپنے شہر کی طرف آرہا تھا تو دیکھا کہ وہ عورت ابھی بھی شہر کی طرف جا رہی تھی ۔۔ میں نے اس کے قریب گاڑی روکی اور اسے پوچھا آپ کدھر جا رہی ہیں ۔ اس نے بتایا کہ شہر کی طرف جا رہی ہے ۔ میں نے اسے کہاآپ بیٹھ جاؤ۔ میں بھی ادھر ہی جا رہا ہوں ۔ اس نے ٹیکسی کا سائین دیکھ لیا تھا وہ بولی نہ نہ میرے پاس ٹیکسی کا کرایہ نہیں ہے ۔۔ میں نے کہا آپ بیٹھ جاؤ مجھے کرایہ نہیں چاہیے۔۔ وہ ٹھٹھرتے ہوئے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔ ۔۔ جب ہم شہر میں پہنچے تو اس نے اپنے پرس سے پانچ پاونڈ کا نوٹ نکالا کہنے لگی میرے پاس بس اتنے ہی ہیں آپ یہ لے لو۔
مجھے کئی سال پہلے والاخیر الدین یاد آگیا ۔۔ میں نے کہا میں نے آپ کو لفٹ دی ہے کرایہ کیلئے نہیں بٹھایا۔ وہ خوشی سے پاگل ہوگئی ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے اور بولی آپ کے ہاں وہ کیا کہتے ہیں ۔۔ نمستے نمستے ۔۔ میں نے کہا نہیں میں انڈین نہیں ہوں ۔ میں پاکستانی ہوں ۔۔۔ہم پاکستانیوں کو شکریہ کہنے کے لئے بھی آپ کو ہاتھ جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔وہ بولی یہ پانچ پاونڈ لے لو میری طرف سے کافی پی لینا۔۔ میں نے کہا یہ بھی نہیں چاہیے ۔ ہم ٹیکسی ڈرائیور محنت کے پیسے لیتے ہیں مدد کے نہیں ۔۔۔ وہ بولی آپ مجھے لفٹ نہ دیتے تو میں سردی میں ٹھٹھر جاتی میں اتنی سردی میں بہت مجبورتھی لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے ۔۔ میں نے پھر ایک دفعہ پھر خیرو کا جملہ دہرایا ۔۔ ہم پاکستانی ہیں کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستانیوں کی اچھی خصوصیات یاد کرکے یوم آزادی منائیں ۔۔
پاکستانی میں خیرو جیسے اچھے ڈرائیور بھی ہیں ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply