میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(17)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

 

 

 

 

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

مایوسی میں امید کی کرن۔شملہ معاہدہ

(قسط17)

تقریبا ً چھ ماہ گزر گئے تھے۔ کیمپ کی زندگی اب بظاہر معمول کے مطابق گزر رہی تھی۔ وہی ہر صبح، المونیم کے پیالے میں چاۓ کے ساتھ رات کی بچی باسی روٹیوں کاناشتہ، اور پھر قیدیوں کی گنتی ۔ اس کے بعد معمول کے مطابق تین سے چار گھنٹے کام پر جانا اور وہاں سے واپس آکر تھوڑا آرام کرنا۔دوپہر میں سبزی روٹی کا کھانا نوش جاں کرنا۔ شام کو تھوڑا کھیل کود اور پھر پڑھائی۔ ہاں ان سب معمولات کے ساتھ نمازکی پابندی برقرار رہی۔البتہ اس تمام عرصے میں ایک سوال کی تکرار مسلسل تھی کہ پاکستان کب جائیں گے؟ جس کا امید افزا جواب یہ ہوتا کہ جب بھی دو ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوجاۓ گا۔اس پر اگلا سوال ہوتا کہ یہ معاہدہ آخر کب ہوگا؟تو جواب ملتا کہ امیدپہ دنیا قائم ہے انشا اللہ ضرور جائیں گے۔

رات آٹھ بجے بی بی سی ریڈیو کی خبریں اور اس کا مشہورپروگرام” سیربین” سنا جا تاتھا۔ان خبروں کو باقاعدگی اور دلجمعی سے اس امید پہ بھی سنا جاتا تھا کہ شایدکوئی  معاہدہ ہوجاۓ۔ لیکن اسکے متعلق ایسی کوئی  خبر نہ سن کر امید اگلے دن کے لیےباندھ لی جاتی ۔ عشاء کی نماز پڑھ کے سب سونے کی تیاری کرتے ۔ہر اگلا دن کسی اچھی خبر کی نوید کا انتظار ہم سب کو ایک نئی امنگ کے ساتھ جگاتا۔

یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی تھی کہ جو خبریں ہم سب روز سنتے ہیں اس کا ذریعہ ہمارا ریڈیو مرفی رچرڈ تھا۔ جو ڈھاکہ سے چلتے وقت ہم ساتھ لے کر چلے تھے۔ وہ منظربھی عجیب تھا جب ہر فرد بہت انہماک سے خبریں سننے کی کوشش میں لاؤڈاسپیکر کےقریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ کوئی  لفظ سننے سے رہ جاۓ ۔خبروں کے بعد ہر ایک کا اپنا اپنا تبصرہ ہوتا اس طرح سے دو تین گھنٹے تو اسی تجزیاتی گفتگو میں صَرف ہوجاتے۔ اکثر لوگ مذاقا ً مجھ سے کہتے کہ آپ کے ریڈیو سےکوئی  اچھی خبر تو ابھی تک آئی  نہیں۔غرض رات آٹھ بجے بی بی سی کی خبریں اورسیربین پروگرام اور نو بجے ریڈیو پاکستان سے خبریں سننا اور اس میں رہائی  سے متعلق اچھی خبر کا انتظار ہم سب کے معمولات میں شامل تھا۔

آخر کار بہت انتظار اور باقاعدگی سے خبریں سننے کے بعد جون کے تیسرے ہفتے سےکچھ اچھی خبریں آنے لگیں۔یعنی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات کی ابتداء کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ اس وقت میں محض تیرہ سال کا لڑکا تھا۔ سیاست کےشاطروں اور اسکی بساط پہ چلنے والے مہروں سے نا واقف۔ جو خبریں سنتا اس میں مجھے اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے ہی معاہدے کے متعلق علم تھا۔ بعد کے زمانےمیں شملہ معاہدہ کے بابت جو سیاسی تفصیلات سے بھی مکمل آگہی ہوئی۔ ان کواس وقت یعنی معاہدے کے اکیاون برس بعد بیان کرنا میں اہم سمجھتا ہوں۔

شملہ بھارت کے صوبے ہماچل پردیش کا دارالخلافہ ہے اونچائی  پہ واقع یہ سرد شہر اپنی خوبصورتی کے علاوہ اس لیے بھی مشہور ہے کہ یہاں کئی معاہدے ہوۓ ۔ جولائی  سن۱۹۷۲ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان شملہ مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کے مابین امن کا حصول اور تناؤ کو کم کرنا تھا۔ مذاکرات کے ابتدائی  دور میں میں اندرا گاندھی نےاپریل ۱۹۷۲ء میں بھارتی ڈپلومیٹ ڈی پی دہر کو مذاکرات کے طریقہ کار ، شرائط اورضوابط کے لیے پاکستان بھیجا۔ اس وقت پاکستان کے سیکریٹری خارجہ عزیز احمد خان کے ساتھ مری اور پنڈی میں مذاکرات ہوۓ۔ بھٹو کے معاون خصوصی رفیع رضا بھی ان کے نمائندے کے طور پہ شامل تھے۔ابتدائی  مذکرات کے بعد بھٹو نے اپنا طویل غیر ملکی دورہ کیا اور بارہ دن میں ۱۴ ممالک کا سفر کیا۔ جس کا مقصد دوست ممالک سے شملہ میں ہونے والے مذاکرات کی حمایت حاصل کرنا تھا۔

۲۸ جون ۱۹۷۲ء کو ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے، ۸۶ افراد پہ مشتمل وفد لے کر چندی گڑھ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے شملہ پہنچے۔ اس وفد میں ہرشعبہ سے اہم افراد لیے گئے تھے ۔ حتی کہ نیپ (نیشنل عوالی پارٹی)کے مشہور سیاسی رہنما ولی خان بھی۔ بھٹو کے ساتھ سیکریٹری خارجہ عزیز احمد خان، معاون خصوصی رفیع رضا، وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب احمد خان مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔ بھٹو کے ساتھ ان کی اٹھارہ سالہ بیٹی بینظیر بھٹو بھی تھیں جو اس وقت ہارورڈ کی طالبہ تھیں۔اورگرمیوں کی چھٹیا ں منانے پاکستان آئی  ہوئی  تھیں۔ ان کے والد بیٹی کو سیاسی تربیت کے لیے ساتھ لے گئے تھے۔

گو مذاکرات کے لیے شملہ جیسے ٹھنڈے مقام کا انتخاب جون کی گرمی سے بچنے کے لیےتھا لیکن ان مذکرات کا موضوع خاصا گرم تھا،لہٰذا خدشہ تھا کہ کوئی  نتیجہ نہ نکلے گا۔

اس وقت صورتحال یہ تھی کہ سولہ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سقوط ڈھاکہ کے نتیجہ میں ہندوستان کی ہتھیار سے لیس افواج اورمشرقی پاکستان کی باغی باہنی فوج کے آگےہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستان کی تقریباً چوتھائی  فوج یعنی ترانوے ہزار فوجی اورشہری، ہندوستان کی قید میں محصور تھے۔ جنگ کے نتیجہ میں پاکستان نے پانچ ہزارمربع میل کا حصہ بھارت کے قصبہ میں ہونے کی وجہ سے کھو دیا تھا اور اس کے باعث پاکستان خاصے دباؤ میں تھا۔

کئی دنوں مسلسل گفتگو کے بعد یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کے بجاۓ ناکام نظر آرہےتھے۔

ریڈیو سے مذاکرات کی ناکامی کی خبریں ملتیں تو ہم سب پہ مایوسی کے بادل چھاجاتے ۔کچھ بزرگ افراد نے دوسری جنگ عظیم کے قیدیوں کے حالات بتانے شروع کر دیےکہ اس وقت بھی یہی  کچھ ہوا تھا۔ یہ سب سن کر ہم سب میں ایک خوف سا طاری تھا کہ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں شاید ہمیں مزید دو تین سال پابند سلاسل رہناپڑے۔

پاکستانی وفد دو جولائی کی دوپہر تک بغیر کسی فیصلہ کے وطن واپسی کا ساما ن پیک کرچکا تھا۔اگلے دن وطن واپسی سے قبل پاکستان کی جانب سے عشائیہ کا اہتمام تھا۔ اور اس رات کچھ ایسا ہوا کہ مذکرات میں ناکامی کا پانسہ ایک دم ہی پلٹ گیا۔ ہوایہ کہ ڈنر سے قبل بھٹو صاحب نے اندرا گاندھی سے تنہائی  میں بند کمرے میں بات چیت کے بجاۓ سرکاری رہائش گاہ سے باہر چہل قدمی کرتے ہوۓ گفتگو کا فیصلہ کیا۔ اندراگاندھی جو طاقتور اور فتح مند لیڈر تھیں ، اور اس وقت ہندوستان کی مہارانی اور درگاہ کی حیثیت رکھتی تھیں ، اس ملاقات میں کرشماتی اور زیرک سیاست دان بھٹو کی گفتگو سے کچھ اس طرح متاثر ہوئیں کہ اس معاہدہ پہ راضی ہوگئیں جو پاکستان کےحق میں ہوا۔ چہل قدمی سے واپسی پہ بھٹو نے اپنی بیٹی بینظیر کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ معاہدہ ہوجاۓ گا۔اور ایسا ہی ہوا۔ڈیڑھ گھنٹے کی لمبی چہل قدمی سےلوٹنے کے بعد دونوں لیڈران نے اپنے اپنے اسٹاف کو معاہدے کے الفاظ میں ردو بدل کی ہدایت کی۔ جو اس بات کی دلیل تھی کہ باہم گفت وشنید کچھ رنگ لائی  ہے۔

اس معاہدہ میں پاکستان کو اس لحاظ سے کامیابی ہوئی کہ اسے  پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ مل گیا ۔ اور بھارت نے جنگی قیدیوں کی واپسی پہ عمل   شروع کرنے پر بھی مثبت رویے کا مظاہرہ کیا۔اندرا گاندھی کے اس فیصلہ کو مخالف لیڈران نےبڑی سیاسی غلطی قرار دیا۔اس طرح پاکستان میدان جنگ میں ضرور پسپا ہوا لیکن مذاکرات کی میز پہ باوجود کمزور صورتحال کے پاکستان یہ بازی جیت گیا تھا۔

شملہ معاہدہ وہ واحد دستاویز ہے کہ جس پہ سرکاری مہر کے بغیر ہی دستخط ہوۓ۔اور جسے ٹائپ کرنے کے لیے ہنگامی طور پہ ہوٹل سے ٹائپ رائیٹر منگوا یا گیا۔ کیونکہ پاکستانی عملہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں روانگی کے لیے تیار تھا اور تمام دفتری سامان پیک کر چکا تھا جس میں مہر بھی شامل تھی ۔ اس طرح رات بارہ بج کرچالیس منٹ پہ جب مُہر کے بغیر معاہدہ پہ دستخط ہوۓ تو دراصل اس پہ درج دو جولائی کی تاریخ کے بجاۓ تین جولائی  کا دن شروع ہو چکا تھا۔

شملہ معاہدے کے خاص نکات یہ تھے۔

۱-دونوں ، پاکستان اور انڈیا، ملک دشمن محاذ آرائی کو ختم کرکے برصغیر میں دیرپاامن اور باہمی ترقی پہ توجہ دیں گے۔

۲۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ بند کرتے ہوۓ اچھے تعلقات کی جانب کام کریں گی۔

۳۔دیرپا امن کے لیے دونوں ممالک اپنی افواج کو تیس دن کے اندر اپنی سرحد کے پیچھےلے جائیں گے۔

۴- جموں اور کشمیر میں سترہ دسمبر ۱۹۷۱ میں ہونے والی جنگ بندی لائین کو لائین آف کنٹرول کا درجہ دے کر اسکا احترام کیا جاۓ گا۔ اور کوئی  تبدیلی نہیں کی جاۓ گی۔

۵۔ حالات معمول پہ لانے کے لیے بتدریج سفری سہولیات ، تجارت، مواصلات، اورسائنس کے میدان میں تعاون کریں گے۔ اور ان اقدامات کے لیے دفعتا ًفوقتاً ملتے رہیں گے۔

اسوقت بنگلہ دیش کا موقف تھا کہ پندرہ سو پاکستانی فوجیوں کی جو فہرست دی ہےوہ ہمیں دے دیے جائیں تاکہ ہم ان پہ مقدمہ چلائیں ۔ بنگلہ دیش کی دوسری شرط اس نئی آزاد حکومت بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی تھی۔ بھٹو نے یہ دونوں ہی باتیں نہیں مانیں۔ انہوں نے کہا یہ ہمارے فوجی ہیں ۔ جنہوں نے جینوا کنونشن کے تحت ہتھیارڈالے ہیں۔ انہوں نے جو بھی کیا وہ اپنے ملک کے  دفاع کے لیے کیا تھا۔ لہٰذا جو کچھ کرنا ہوگا ہم اپنے قانون کے مطابق اپنے ملک میں ہی کریں گے۔ اور بنگلہ دیش کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔

گو شملہ معاہدے میں پاکستان کی کامیابی واضح تھی لیکن اس میں کیمپ کےمحصورین کو اپنی حتمی رہائی  کی خبر نہ سنائی  دی۔ جس کی وجہ سے ان میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔ کیمپ کے کچھ جہاندیدہ لوگوں نے جن میں ایک صحافی بھی تھے،  کہا”نہیں ہمیں پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھا چاہیے۔ دیر یا بدیر ہم توچلے ہی جائیں گے۔ لیکن ملک کے حساب سے یہ اچھا ہوا،کہ کمزور پوزیشن کے باوجودمذاکرات میں ہماری باتیں مانی گئیں۔” اس تمام صورتحال کے دوران ان معاملات پہ سردو گرم تبصرہ ہورہے تھے ۔ اس وقت میرے ابّی بتدریج ٹھیک ہورہے تھے وہ بحث میں حصّہ لیتے ، اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے لیکن جولائی  میں مذاکر ت کے چار ماہ بعدبھی جب حتمی رہائی  کی کوئی  خبر نہ آئی  تو وہ دوبارہ اپنی پرانی حالت پہ لوٹ گئے ۔

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل لنک سے مدد لی گئی ہے۔

https://www.urdunews.com/node/682461 

https://m.youtube.com/watch?v=eAa5VAibdt4&feature=youtu.be

Advertisements
julia rana solicitors

https://m.thewire.in/article/history/the-untold-story-behind-indira-gandhis-decision-to-release-93000-pakistani-pows-after-the-bangladesh-war/amp

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply