منٹو کا دھواں: ایک غیر ادبی تاثر/اظہر علی

دھواں منٹو کے ان افسانوں میں سے ایک ہے جن کے سبب منٹو کو عدالتوں کی دھول کھانی پڑی۔ آزادی سے پہلے برطانوی فوجداری عدالت میں دھواں کو فحش، غیر اخلاقی اور سماجی بےراہروی کو فروغ دینے کے جرم میں منٹو کو بلایا گیا اور ادب اور فحش نگاری پر بات کرنے کا آغاز ہوا. اچھا یہ ہوا کہ استغاثہ کمزور دلائل پر مبنی تھا اور عدالت نے منٹو کے حق میں فیصلہ دے کر اسے موقع دیا اور اس نے اپنے نئے افسانوی مجموعے کا نام ‘دھواں’ سے منسوب کیا اور ناقدین پر کاری ضرب لگائی۔

منٹو ترقی پسند تحریک کی فضا میں سانس لینے کے باوجود بھی ایک الگ ہی کیلیبر اور سوچ کے مالک تھے۔ اس افسانے (دھواں) کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ منٹو ازل سے انسان کی جبلی اور معاشرتی احساسات کو دیکھتے، پرکھتے اور سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔مرنے کے باوجود بھی ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ وہ ادھر آس پاس ہی کہیں ہمارے بیچ میں سانس لے رہے ہیں اور ہماری جبلی، نفسیاتی اور سماجی کشمکش سے محظوظ ہورہے ہیں۔ باغ عدن میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے داخلی کشمکش اور خدا تعالیٰ کی حکم عدولی کی نفسیاتی کشمکش سے خوب آگاہ ہو کر رہتی دنیا تک کے انسانوں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں اور کیا ہی بہتر انداز پر کرتے ہیں۔

دھواں اسی نفسیاتی اور جنسی کشمکش کی ایک خاص معنویت کی عمدہ مثال ہے۔ اس افسانے کا پہلا کردار مسعود گیارہ بارہ سال کا لڑکا ہے جو بازار میں صبح سکول جاتے ہوئے راستے میں قصائی کی دکان پر تازہ گوشت دیکھتا ہے جس سے دھواں نکل رہا ہوتا ہے اور گوشت کچھ جگہوں سے پھڑک بھی رہا ہوتا ہے۔وہ گھر آ کر اپنی  ماں سے یہ روداد بیان کرتا ہے مگر ماں اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی۔ اس کی بہن، کلثوم، ساتھ کمرے میں ریاض کررہی ہوتی ہے جب مسعود کی باتیں سنتی ہے، تو اس کے پاس آ کر اسے کہتی ہے کہ اس کی  کمر میں درد ہورہا ہے، وہ آ کر اسے تھوڑا سا دبا دے. مسعود مان جاتا ہے مگر تنگ آکر یہ بھی کہتا ہے کہ وہ اسے دس پندرہ منٹ تک دبائے گا اور پھر چلا جائے گا۔ کہانی کا موضوع چونکہ قبل از وقت مسعود کی جنسی بیداری اور نفسیاتی الجھن ہے تو یہ باتیں مسعود کے شعور کی گرفت میں نہیں آتیں  اور باہر نکل دھویں میں گھرے پہاڑ اور بارش ہونے کے منظر سے لطف لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یونانی دیومالا میں ریا نامی ایک دیوی ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دیوتاؤں کی بیٹی ہے۔ اسے دیوتاؤں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔اس کی شادی اپنے ہی بھائی کرونس سے ہوتی ہے۔ کرونس اقتدار کے لیے اپنے باپ کو مارتا ہے۔کرونس کے چھ بیٹے ہوتے ہیں۔ کرونس کے بارے میں پیشن گوئی کی جاتی ہے کہ اسے اس کا بیٹا ہی مارے گا چنانچہ وہ اپنے بیٹوں کی پیدائش کے بعد انہیں مارتا ہے۔ پانچ بیٹوں کی پیدائش کے بعد اس کی بیوی اپنے چھٹے بیٹے زیوس کو بچ بچا کر اولمپیا کے پہاڑوں میں چھپ جاتی ہے جو بڑا ہو کر کرونس کو مار ڈالتا ہے۔ اس دیومالا کے  ذکر کا مقصود صرف یہ تھا کہ مسعود اور کلثوم کے مابین تعلق کچھ اسی طرز پر بننے کی جانب بڑھتا ہے مگر سماجی اقدار انسانی جبلت کو روک ڈالتی ہے اور شاید اسی بنا پر ہی منٹو عدالت کے چکر لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply