بھارت سے دوستی ضروری ہے/لیاقت علی

خالصتان کے قیام کے لئے پروپیگنڈہ پاکستان کی ریاستی پالیسی کا اہم جزو ہے۔ ہمارے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ خالصتان کے نام پر بھارت کو زچ کیا جاسکتا ہے۔اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان فراخ  دلی سے بھارتی سکھوں کو ویزے جاری کرتا ہے اور سکھوں کےوفود کی ریاستی سطح پر پذیرائی کی جاتی ہے۔ کرتارپور گردوارے کی چار سال قبل تزئین وآرائش اور اس کو سکھ زائرین کے لئے کھولنا پاکستان کے خاکی پالیسی سازوں کا پراجیکٹ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ گردوارے کھولنے کی افتتاحی تقریب میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ خود موجود تھے اور اس موقع پر ان کی نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ جھپی بہت مشہور ہوئی تھی۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ گردوارہ کرتار پور کے درشن کے لئے لاکھوں سکھ آئیں گے جس سے نہ صرف پاکستان کو ریونیو ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت سرکار کے خلاف پروپیگنڈہ  کرنے کے وافر مواقع بھی میسر آئیں گے لیکن ان کی خواہشات پوری نہ ہوسکیں اور جہاں وہ ہزاروں سکھ زائرین کی توقعات لگائے بیٹھے تھے وہاں چند سو سے زیادہ سکھ نہ آسکے۔ ایسا آخر کیوں ہوا کہ سکھ زائرین نے گردوارہ کرتار پور آنے میں کوئی گرم جوشی نہ دکھائیِ؟

بھارت سرکار خود مذہب کے نام پرسیاست کرتی ہے لہذ اسے بخوبی علم ہےکہ مذہبی سیاست کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس نے سکھوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ گردوارہ کرتار پورجانا خود کو دہشت گردوں میں شامل کرنے کے مترادف ہے۔وہاں جانے پر کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔لہذا وہاں نہ جانے ہی میں عافیت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ چار سال بعد نوبت یہ آچکی ہے کہ روزانہ دو تین سو  سے زیادہ سکھ گردوارہ کرتار پور صاحب نہیں آتے۔

پہلے پہل پاکستانی بھی وہاں جاتے تھے لیکن ان سے اس قدر تفتیش کی جاتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی فوجی تفتیشی سنٹر میں آگئے ہیں۔ بائیو میٹرکس اور مختلف اقسام کی رکاوٹوں کے بعد گردوارے کے صحن تک رسائی ملتی ہے۔گردوارے کے اندرنہیں جانے دیا جاتا کیونکہ وہاں موجود سکیورٹی سٹاف کے مطابق مسلمان گردوارےمیں نہیں جاسکتا۔سارا علاقہ ایک چھوٹی سی فوجی چھاؤنی بن چکا ہے۔ جونہی آپ بھارت سے آئے کسی سکھ سے بات کرتے ہیں درمیان میں سکیورٹی اہل کار آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔یہ ممکن ہے کہ آپ کو تفتیش کے لئے کسی ایک علیحدہ کمرے میں لے جایا جائے اور الٹے سیدھے سوالات کئے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ بات   سمجھ نہیں آتی کہ بھارت سے معمول کے تعلقات قائم کئے بغیر سکھوں سے دوستی ممکن نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply