• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • فحش ویڈیوز دیکھنے والوں کی دماغی حالت سے متعلق نئی تحقیق

فحش ویڈیوز دیکھنے والوں کی دماغی حالت سے متعلق نئی تحقیق

ہمارے ہاں پورن ویڈیوز دیکھنا یعنی فحش مواد دیکھنا ایک عام عمل ہے لیکن اس کے اثرات کے حوالے سے جاری بحث تا حال کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچی ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ جنسی عمل چاہے عملی ہو یا بصری اسکے اثرات سب سے پہلے ہمارے دماغ پر مرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اعضا کو ملنے والی کمانڈ کے مطابق ہمارا جسم عمل کرتا ہے۔ سائنسدان بھی اسی سوال کا جواب تلاش رہے ہیں۔
انیس سو چودہ کی ایک تحقیق کے مطابق، فحش مواد کے دیکھنے سے دماغ کا وہ حصہ سُکڑ سکتا ہے جس میں لذت محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ برلن کے ایک تحقیقی ادارے میکس پلینک انسٹیٹیوٹ کے ریسرچرز نے ساٹھ ایسے مردوں کے دماغوں کا جائزہ لیا جب وہ فحش مواد دیکھ رہے تھے اور ان سے اس دوران ان کی فحش مواد دیکھنے کی عادات کے بارے میں سوالات بھی کیے۔

اس تحقیق کے مطابق دماغ کا ایک حصہ جو لذت کے ذریعے انعام سے نوازتا ہے یعنی لذت کا احساس دلاتا ہے جسے سٹریاٹیم کہتے ہیں وہ ان لوگوں کے دماغ میں چھوٹا تھا جو کثرت سے فحش مواد دیکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں جنسی خواہش بیدار کرنے کےلیے اور ایستادگی کے لیے اور بھی زیادہ فحش مواد دیکھنے کی ضرورت ہے۔

تاہم ریسرچرز یہ نہیں جان سکے جو مرد جن کے دماغ کے سٹریاٹیم چھوٹی تھی ان کی فحش مواد دیکھنے کی زیادہ خواہش تھی یا تکرار سے فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے ان کی سٹریاٹیم سُکڑ گئی تھی۔ تا ہم یہ ریسرچرز فرض یہی کرتے ہیں کہ مردوں کی سٹریاٹیم کثرت سے فحش مواد دیکھنے سے سکڑتی ہے۔

جسم پر پڑنے والے فحش مواد کے دیگر اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے کثرت سے دیکھنے سے حساسیت کم ہو جاتی اور ایستادگی ہونے میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس بات کی حمایت میں کوئی زیادہ تحقیقی مواد نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ لاس اینجیلس کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی کورکوڈیا یونیورسٹی کے ریسرچرز کا کہنا ہے کہ فحش مواد دیکھنے سے جنسی بیداری پیدا ہوتی ہے۔ ان کی تحقیقی کے مطابق فحش مواد دیکھنے والے مردوں میں جنسی بیداری زیادہ نظر آئی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply