اگست 2021 میں اقتدار پر قبضے کے بعد سے، طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کو ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے دور کردیا ہے، خواتین پر پارکوں، تفریحی میلوں پر جانے پر پابندی لگا دی ہے، اور انہیں عوامی مقامات پر پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
طالبان حکومت کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری ہونے والے حکم کے تحت ملک بھر میں ہزاروں بیوٹی پارلرز بند کردیے گئے ہیں۔
یہ بیوٹی پارلز افغان خواتین چلاتی تھیں جو اکثر گھرانوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں۔
افغانستان میں عوامی مظاہرے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور اکثر انہیں طاقت کے ذریعے منتشر کردیا جاتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بدھ کو احتجاج میں 50 کے قریب خواتین شریک تھیں۔
مظاہرین نے بعد میں صحافیوں کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کیں جن میں دکھایا گیا کہ حکام انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کررہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق کابل میں بیوٹی پارلرز کے لیے مشہور علاقے ”بوچر اسٹریٹ“ (کوچہ قصابی) پر ہونے والے اس احتجاج میں شریک ایک خاتون نے ایک تختی اٹھا رکھی تھی، جس پر لکھا تھا کہ ’’میری روزی روٹی اور پانی تو مت چھینو
بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی ایک خاتون نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’ہم تو بس اپنے کام کرنے کا حق اور اس حوالے سے حکم کی منسوخی چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان نے اس کا جواب واٹر کینن اور ہوائی فائرنگ سے دیا اور بعض خواتین کو اٹھا کر بھی لے گئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں