ناقد کی فلاسفی/مبشر حسن

The philosophy of Cynics (cynicism)

جب ہم انگریزی میں لفظ Cynics استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ” ایک ایسا انسان جس کو کسی چیز کی کوئی پروا نہ ہو ” یہ جو بنیادی خیال ہے یہ سنیکل سکول ( فلاسفیکل سکول) تھا جس نے یہ تصور دیا ۔
اگر آپ کی دنیا کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہے تو باقی دنیا کو بھول جاؤ باقی دنیا کی کیا پرواہ ۔
اس کے فاؤنڈر تھے
Antisthenes 400 BCE
ایک فاؤنڈر تھا۔
Diogenes 412-323 BCE
ایک فاؤنڈر تھا ۔
Crates of Thebes 365-285 BCE
ایک فاؤنڈر تھا ۔
یہ بڑے ہی انٹرسٹنگ قسم کے لوگ تھے اور شاید فلسفے کی تاریخ میں سب سے مزاحیہ ، سب سے مزےدار سب پاگل قسم کے لوگ تھے ۔
سِینک کہتے تھے جس طرح سقراط نے غربت  اپنا لی وہ ننگے پیر پھرتا تھا اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی اسے صرف اس بات کی پرواہ تھی کہ میں علم حاصل کروں ۔ اسے دنیاوی چیزوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔
تو سِینک بھی یہی کہتے تھے جس طرح سے سقراط نے غربت کو گلے لگا لیا بالکل اسی طرح سے ہمیں بھی غربت کو گلے لگا لینا چاہیے ۔اور یہ دنیا کی جو چیزیں ہیں ان کو ہمیں بھول جانا چاہیے ۔
سقراط کا مشہور فقرہ تھا ۔
What a lot of things I don’t needs.
یہ بیسک فلسفہ تھا تمام سِینک کا کہ ہمیں کیا ضرورت ہے چیزوں کی ۔
فلاسفی ان کی نظر میں ایک ایسی سوچ تھی کہ جو انسان کو اس قسم کا بنا دے کہ جس کو اپنے علاؤہ کسی اور چیز کی پرواہ نہ ہو ۔
” Philosophy is to Care for nothing”
اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کی دلی خوشی جو ہے وہ ہمیں مادی چیزوں میں نہیں مل سکتی ، پیسے سے نہیں مل سکتی وہ ہمیں سیاسی اقتدار سے نہیں مل سکتی ۔ خوشی ہر انسان کو مل سکتی ہے چاہے غریب ہو یا امیر ہو ، اور وہ اس طرح ملے گی کہ ہمیں قدرت کی طرف واپس جانا چاہیے یہ جو سماج ہم نے بنایا ہے ، ہم نے جو تہذیب بنائی ہے اس کے نتیجے میں ہم قدرت سے دور ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے تھے انسان قدرتی طور پر نہ تو اس طرح پیدا ہوا اور نہ ہی اس طرح رہنا پسند کرتا ہے اور نہ اس کے لیے یہ اچھا کہ وہ اس طرح سے رہے ۔
جہاں ارسطو یہ کہتا تھا سوسائٹی جو ہے وہ ایک فطری شے ہے کیوں کہ انسان ایک سوشل اینیمل ہے ۔
سینک اس کے بالکل الٹ کہتے تھے وہ کہتے تھے یہ جو ریاست بنی ہوئی ہے ، اور یہ جو سیاست ہو رہی ہے ، یہ جو تہذیب ہم نے قائم ہوئی ہے اور شہری زندگی بنائی ہوئی ہے ۔
یہ انسان کی فطرت کے بالکل خلاف ہے ۔اس لیے وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دینا چاہتے تھے ۔ یعنی وہ ہر چیز فطرت سے حاصل کرنے پر یقین رکھتے تھے ۔ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ انسان واپس چلا جائے اپنے نیچرلی ، قدرتی سٹیٹ میں یعنی ایک قسم کی اینیمل ایگزسٹنس میں چلا جائے ۔
سینک اپنے زمانے کے یونانی مذہب کو اور یونانی روایات کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے بلکہ طنز کیا کرتے تھے ۔

ایک دفعہ جب Antisthenes کو ایک پادری نے بتایا کہ موت کے بعد  اگر آپ نے اچھے عمال کیے ہوں گے تو آپ کو   جنت ملے گی تو Antisthenes نے طنز کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے آپ مر جائیں پھر۔

اسی طرح جب ایک یونانی پادری نے ایک چور کو پکڑا جو چوری کر رہا تھا تو Antisthenes وہاں موجود تھا اس نے کہا لو جی بڑے چور نے چھوٹے چور کو پکڑ لیا ہے ۔

اس طرح Diogenes دن کے وقت بازار میں چراغ لے کر چلے گئے تو لوگوں نے کہا دن کے وقت چراغ لیے کیا کر رہے ہیں اس نے جواب دیا میں انسان تلاش کر رہا ہوں ۔

سینک اپنے زمانے کے جو حکمران اور امیر اور عیاش طبقہ تھا ان پر بھی سخت تنقید اور طنز کیا کرتے تھے ۔
مثال کے طور پر Diogenes لیٹا ہوا دھوپ سینک رہا تھا تو الیگزینڈر اس سے جا کے ملا آور کہا میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں تو Diogenes نے جواب دیا آگے سے ہٹ جاؤ دھوپ آنے دو۔
اس طرح ایک دفعہ جب Diogenes کو ایک بہت امیر شخص نے دعوت پر بلایا تو جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں بہت زیادہ مہنگی ترین چیزیں پڑی ہوئی تھیں تو Diogenes نے کیا کیا اس امیر کے منہ پر تھوک دیا اور کہا کہ یہ ساری چیزیں اتنی خوبصورت تھیں میں ان پر نہیں تھوک سکتا تھا ۔
سینک یہ کہتے تھے کہ”
Refraining from pleasure is pleasurable.”
اس لیے ان کا یہ کہنا تھا کسی بھی ایسے لطف کا مزہ نہیں لینا چاہیے جو اس نظام کا بنا ہوا ہے ۔ وہ یہ کہتے تھے ۔
Love of money is the mother-cuty of evils
یعنی دولت سے پیار تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جو فلاسفر تھے یہ کوئی کام نہیں کرتے تھے انہیں ٹف زندگی تو پسند تھی لیکن کام نہیں کرتے تھے کیونکہ کام کرنا تو غلامی کے نظام سے جڑی ہوئی چیز تھی اور غلامی کو وہ بہت بُری شے سمجھتے تھے ۔

یہ لوگ اس طرح زندگی بسر کرتے تھے کہ سڑک پر جا کے بھیک مانگنے تھے ایک مرتبہ کیا ہوا کہ Diogenes جو ہے وہ بت کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور بھیک مانگ رہا تھا تو لوگوں نے پوچھا کیا کر رہے ہو کہتا ہے میں پریکٹس کررہاہوں کہ بت سے بھیک کیسے مانگی جاتی ہے ۔
لوگوں نے اس پوچھا ایک طرف تو تم لوگ اشرافیہ طبقے پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سے بھیک مانگتے ہو ، اس کی کیا وجہ ہے (یعنی لوگوں کی ہی گالیاں دیتے ہو اور انہیں کے  آگے ہاتھ پھیلاتے ہو )
تو سینک نے جواب دیا کہ دراصل اس کا جواب ارسطو نے اس کا جواب بالکل ٹھیک دیا ہے کہ
All things belongs to the Gods.
تمام چیزیں  خدا تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اور جو عقل مند لوگ ہیں وہ خداکے دوست ہیں ، دوست ایک دوسرے کے ساتھ چیزیں شیئر کیاکرتے ہیں اور چونکہ ہم عقل مند ہیں اس لیے تمام چیزیں جو ہیں وہ تو ہماری ہیں ۔
سینک کا لوگوں کی سوچ پر بہت گہرا اثر تھا ایک طرح سے انہوں نے ان فیشن ایبک ہونے کو فیشن ایبک بنا دیا ۔
سینک کا نیچے کی فلاسفی پر بھی بہت گہرا اثر ہوا ، اسی طرح عرب جو تھے ان پر بھی بہت گہرا اثر ہوا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ جو بنیادی تصور تھا کہ مادی چیزوں کے بغیر رہنا ہے اگر خدا کو حاصل کرنا ہے خدا کو سمجھنا ہے تو مادی چیزوں کو چھوڑنا پڑے گا اور صوفیوں اور درویشوں کی طرح رہنا پڑے گا یہ سینک کا فلسفہ تھا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply