واصف علی واصف رح – ایک مقناطیسی شخصیت۔۔محمد منیب خان

جنوری کا مہینہ ہر لحاظ سے واصف صاحب رح کی یاد دلا دیتا ہے۔ البتہ واصف صاحب پہ کوئی تحریر لکھنے کے لیے توانائی جمع کرنے میں شاید برسوں مزید بیت جاتے۔ جنوری ہی وہ مہینہ ہے جس میں واصف صاحب رح کی پیدائش ہوئی اور اسی مہینے میں1993 میں وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔ یوں تو واصف صاحب کا قلم پھر دوبارہ کوئی تحریر نہ لا سکے گا ,البتہ بہت سی تحریروں میں انکا رنگ ملے گا۔ بہت سے مصنفین ان کے جملوں کو اپنے انداز میں برت کر داد سمیٹتے رہیں گے۔ انکی محفل جو اس دور میں لاہور کی پہچان بنی وہ محفل باقی نہ رہی، البتہ اس محفل کا رنگ کوسوں پھیل گیا۔ انکی آواز کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے اور فکرِ واصف کا چراغ جل رہا ہے۔واصف صاحب نے جو لکھا اور جو کہا وہ آپ کے اس دور کے متعلقین تک محدود نہیں رہابلکہ اس نے اپنا ایک حلقہ اثر بنایا۔ اور یہ حلقہ اثر انکی وفات کے اٹھائیس سال بعد تک مسلسل بڑھ رہا ہے اور واصف صاحب کا ذکراب محض گلش راوی کے اس مکان تک محدود نہیں رہا جہاں باقاعدہ محفل جما کرتی تھی۔ اب فکر واصف کی محافل جابجا جمتی ہیں۔

ہماری یہ خوش قسمتی ہوئی کہ واصف صاحب کی محافل کو ایک دور میں اشفاق احمد صاحب نے ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ ایک انٹریومیں اشفاق صاحب نے بتایا کہ ابتدا میں واصف صاحب کو یہ بات پسند نہ آئی۔ لیکن پھر واصف صاحب کسی طور ایک دو  بار کےبعد راضی ہو گئے۔ میں اب سوچتا ہوں کہ اگر اشفاق احمد واصف صاحب کی محافل کو ریکارڈ کرنے کی بنیاد نہ ڈالتے تو ہم ایک بڑے علمی ورثے سے محروم رہ جاتے۔ اس دور میں انٹرنیٹ کا ایسا انتظام ہوتا تو شاید واصف صاحب کی فکر کو   وسیع عالمی حلقہ اثر میسر آ جاتا۔ بعض لوگوں کو یہ بات محض مبالغہ محسوس ہوگی لیکن دور حاضر میں اگر آپ سدھ گرو (Sadhguru)کو سنیں یاپائیلو کوئیلو کو پڑھیں اور آپ واصف صاحب کی تصانیف سے آشنا بھی ہوں تو آپ کو میری بات میں وزن محسوس ہوگا۔ آپ اندازہ کریں کہ پاکستان میں غالباً چوٹی کے سب موٹیویشنل سپیکرز نے واصف صاحب کو رٹا ہو ا ہے۔ اور وہ جابجا کہیں نام لے کر اور کہیں نام لیے بنا انہی کی باتیں بیان کرتے ہیں۔ میرا مقصد یہاں کسی کا قد کاٹھ ناپنا نہیں اور نہ ہی کسی کے کام کو کم تر ثابت کرنا ہے۔البتہ بات کرنے کا مقصد ہے کہ فکر کے چراغ سے چراغ کیسے جلتے اور خیال کیسے پرواز کرتا ہے۔

اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ نثر کی پہلی باقاعدہ کتاب جو میں نے خریدی اور پڑھی وہدل دریا سمندرتھی یا کوئی اور۔ البتہ یہ بات واصف صاحب خود کہا کرتے تھے کہ جس کا ایک بار مجھ سے تعلق قائم ہو جائے وہ ٹوٹتا نہیں۔ اور پھر یہ بات خود مجھ پہ بیتی۔ ایک کے بعد دوسری کتاب، دوسری کتاب کے بعد تیسری، اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ اللہ بھلا کرے واصف صاحب کے صاحبزادےکاشف صاحب کا کہ انہوں نے اس دور کی وہ محافل جو ریکارڈ ہوئیں انکو کتابی شکل میں شائع کیا۔ یہ یقیناً ایک دقیق کام تھا البتہ یہ  سلسلہ بخوبی چل رہا ہے۔ اب تک ان ریکارڈ محافل کی غالباً اٹھائیس کتب شائع ہو چکی ہیں۔ واصف صاحب کی گفتگو پڑھتے ہوئے آپکوشاذ ہی احساس ہو گا کہ باتیں لکھی نہیں گئیں بلکہ بولی گئی ہیں یعنی واصف صاحب کی گفتگو کا اسلوب اتنا شاندار تھا کہ و ہ بطور تحریر بھی پُر اثر اور پُرکشش ہے۔

واصف صاحب رح کو مختصر لفظوں میں بڑی اور گہری بات کہنے کا فن وودیعت تھا۔ یہی وجہ تھی کہ واصف کے  جملوں کو بےتحاشا پذیرائی ملی اور انکے درجنوں جملے زبان زدِ  عام  ہوئے۔ واصف صاحب کے فکر و فن کو دو حوالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ایک اس کا دینی پہلو ہے اور اخلاقی پہلو۔ دینی فکر  کا نچوڑ عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اخلاقی فکر کا نچوڑ قربانی  ہے۔ واصف صاحب کے چاہنے والوں کو شاید انکی فکر کا اتنا اختصار سے کروایا جانے والا تعارف زیادہ پسند نہ آئے لیکن بہرحال میں واصف صاحب کو پڑھ کر اسی  نتیجے پہ پہنچا ہوں۔

انسان کی پرورش میں اور اس کی کردار سازی میں والدین کی تربیت کے علاوہ سکول کے اساتذہ کا کردار ہوتا ہے جبکہ واصف صاحب جیسا استاد اگر کسی کو میسر آ جائے تو اس بات کا امکان ہی نہیں کہ انکو پڑھنے والے کی کردار سازی نہ ہو۔ مجھ ایسےہزاروں پڑھنے والے کسی نہ کسی حوالے سے جب فکر واصف سے متعارف ہوئے تو وہاں کے ہو کر رہ گئے۔

واصف صاحب کی کتابوں سے درجنوں زبان زد عام جملے اس مضمون میں شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ پڑھنےوالے فکر ِواصف سے آشنائی کا سفر خود طے کریں ،انہیں مجھ ایسے کسی شخص سے واصف صاحب کے جملوں کی سند لینے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اتنا مشورہ ضرور دوں گا کہ واصف صاحب کی کتابوں کو اسی ترتیب سے پڑھیں جس ترتیب سے وہ شائع ہوتی رہی ہیں۔کرن کرن سورجتو نثر پاروں پہ مشتمل ہے آپ اس کو کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ مضامین کی کتب پڑھنے کی ترتیب کچھ یوں ہونی چاہیے؛دل دریا سمندر،قطرہ قطرہ قلزماورحرف حرف حقیقت۔

یہ مضمون کسی طور واصف صاحب کی شخصیت یا انکی فکر کا مکمل تعارف نہیں البتہ یہ ایک قاری کے تاثرات اور فکر واصف سےاپنی رفاقت کا ادنیٰ  سا اظہار ہے تاکہ دیے سے دیا جلتا رہے اور لوگ فکر واصف سے متعارف ہوتے رہیں۔ البتہ واصف صاحب کی شخصیت کے مکمل تعارف کے لیے ظہیر بدر صاحب کا مقالہواصف علی واصفاحوال و آثارجو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہےپڑھا جا سکتا ہے۔آخر میں جان کاشمیری صاحب کا ایک شعر

؎ واصفی فکر سے ہر سوچ سجی لگتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ صدی حضرت ِ واصفؒ کی صدی لگتی ہے!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)