ڈرائنگ روم کی سیاست/فرزانہ افضل

بزنس سیاست اور ادب ایسے شعبہ جات ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں مگر اب وہ دَور نہیں رہا کہ ایک شاعر نے شاعری کے علاوہ زندگی میں کوئی اور کام نہیں کیا یا ایک ادیب عمر بھر صرف کہانیاں افسانے اور ناول ہی لکھتا رہا ،اب ادیب حضرات سیاسی ہو گئے ہیں اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لکھنے لکھانے کے شوقین تجزیہ نگار اور رائٹر بن گئے ہیں۔ بزنس ہر شعبے کا حصّہ بن گیا ہے ،میڈیا جانبدار ہے اور ہمارے ملکوں میں ٹی وی چینلز سیاسی پارٹیوں کے زر خرید غلام ہیں۔ ادب بِکتا ہے شاعری بِکتی ہے۔ کئی مخّیر حضرات شہرت کے حصول کے لیے غریب شاعروں سے ان کی شاعری خرید کر اپنے نام سے کتابیں چھپواتے ہیں اور بہت سے رائٹر بھی ایسا کرتے ہیں۔ ایسے ادیبوں اور شعراء کا برطانیہ میں ایک مافیا بن چکا ہے جسے جانتے بوجھتے ہوئے بھی لوگ صرف پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں مگر اس مافیا کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ کیونکہ آج کل لوگوں کا رویہ ایسا ہے کہ وہ خواہ مخواہ کی ٹینشن اپنے سر نہیں لینا چاہتے لہذا سوچتے ہیں کہ جو کوئی  جیسے خوش ہے اس کو ویسے ہی خوش رہنے دیا جائے ۔

خیر بات ہو رہی تھی کہ آج کل کے رائٹر اور شعراء مفلسی کا شکار نہیں ہیں۔ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ہیں اور اپنی روزی اور کاروبار کا اچھا نظام چلاتے ہیں ۔عقلمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہمیں سیاسی پارٹیوں یا دائیں جانب ، بائیں جانب اور درمیانی دھڑوں کے نظریات کے افراد سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ تو مشاہدے میں آتا ہے کہ ہر شخص سختی سے اپنے نظریات پر ڈٹا ہوا ہے اور خود کو دانشور تصور کرتا ہے اور اپنے دنیاوی علم خواہ کافی یا ناکافی کی بنیاد پر خود پسندی اور نخوت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بچپن میں اقوال زریں پڑھتے تھے کہ پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی شاخیں جھک جاتی ہیں یعنی باعلم افراد انکسار پسند ہوتے ہیں مگر وہ سب پرانے دور کی باتیں تھیں آج کل تو باعلم اور بےعلم دونوں ہی اپنے تئیں بڑی شخصیات ہیں۔ سب سے باعزت تو وہ ہے جو با عمل ہے ، اپنی عملی زندگی میں ایک اچھا انسان ہے اور اچھے کردار کا حامل ہے۔ معاشرے کی ترقی اور انسانی حقوق کے لیے عملی طور پر کام کر رہا ہے ، اگر سچ مچ میں دانشور ہے تو زندگی کے معاملات میں کس قدر معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتا ہے، ایسے لوگ نہیں جن کی سیاست صرف ڈرائنگ روم کی محفلوں تک محدود ہے۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے اور محفلوں میں بیٹھ کر شراب و شباب کے نشے میں دھت بظاہر دانشور حضرات اپنے نظریات کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور عملی طور پر کتنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں ایسا شاز و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے ،خود کو فیمنسٹ ہونے کا دعویٰ کرنے والے دانشور حضرات کی فیملی کی خواتین ان مخصوص ادبی محفلوں اور پروگراموں میں کبھی دکھائی نہیں دیتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نظریات کی زبانی جنگ لڑنے والوں کی نظریاتی محفلوں میں یہ فیمنسٹ مرد خواتین کو مرد کی مخصوص نظر سے دیکھتے ہیں ۔ چند سلجھی اور تعلیم یافتہ خواتین کی قلیل تعداد کے سِوا بہت سی ایسی خواتین جو سستی شہرت پر یقین رکھتی ہیں ان بزنس مین ادیبوں اور شعراء سے تعلقات قائم کر کے ان کے ذریعہ شہرت اور دولت حاصل کرنا چاہتی ہیں ، ان محفلوں میں نیم برہنہ لباس میں گھٹیا اداؤں کے جلوے بکھیرتی پائی جاتی ہیں۔ شمع محفل بننے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان کی حرکتیں دیکھ کر اور کھلی گفتگو سن کر نفیس مزاج افراد کو متلی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ اور ان نام نہاد دانشوروں کی محفلوں کا انجام تب ہوتا ہے جب ان کا جھوٹا نظریاتی بحث و مباحثہ، شدید نشے کی حالت میں ایک دوسرے کے ساتھ شدید جھگڑے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ گروپنگ ، حسد ، سازشیں اور جھوٹ جیسی خصوصیات ان میں عام پائی جاتی ہیں یعنی بنیادی سماجی برائیاں ان افراد میں اکثر دیکھنے میں آتی ہیں۔ یہ ڈرائنگ روم کی بے مقصد سیاست کرنے والے لوگ اگر عملی زندگی میں اچھے انسان بن جائیں تو معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ زبانی باتوں اور فلسفے کی بجائے خود کو عمل سے بڑا ثابت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں سدھار نہ آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply