• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شریعت نے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی ہے۔۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

شریعت نے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی ہے۔۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

یہ وہ جملہ ہے جسے آج کل ہر دوسری لڑکی نے حفظ کررکھا ہے۔ کچھ بڑے مولانا حضرات نے بھی سسرال میں بہو پر ہونے والی زیادتیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس جملے کو خوب تعلیم کیا ہے۔ مگر جہاں اس سے ایک خیر برآمد ہوا کہ مرد یعنی شوہر کو ایسی توقعات نہ رکھنے کا احساس ہوا۔ وہاں اس سے دوسرا کریہہ تر شر بھی برآمد ہوا اور وہ یہ کہ آج کی عورت یعنی بیوی نے اس رخصت کو بہانہ بنا کر اپنے ساس سسر کی خدمت یا ان کی فرمانبرداری سے منہ پھیر لیا۔

محترمہ, شریعت نے تو آپ کو اس بات کا بھی مکلف نہیں کیا کہ آپ لازمی راہ گیروں، مسافروں، دور کے رشتہ داروں وغیرہ کے کام آئیں۔ لیکن ہر عملی مسلمان اس سب کا لازمی اہتمام کرتا ہے کیونکہ دین یہی مزاج ہمیں دیتا ہے۔ یہی تربیت ہمیں فراہم کرتا ہے کہ ہر بوڑھے ہر بچے سے محبت و احترام کا معاملہ کریں۔ پھر یہ کیسی منطق ہے؟ کہ شوہر کا رشتہ جسے کسی مرد نے نہیں بلکہ آپ کے رب نے اونچے ترین مقام پر رکھا تھا، جس کی اطاعت و موافقت کو بطور بیوی آپ کی پہلی ذمہ داری بنایا تھا ۔۔ اسی کے بوڑھے والدین کی خدمت سے آپ یہ کہہ کر انکار کردیں کہ شریعت مجھے اس کا مکلف نہیں کرتی؟

اسی کے والدین سے آپ بدتہذیبی سے پیش آئیں اور ان کے جائز مطالبوں کو بھی جوتے کی نوک پر رکھ لیں؟

کیسے بھول جاتی ہیں آپ ؟ کہ آپ کا شوہر اپنے ماں باپ کا بیٹا بھی ہے، جن کی رضا میں اسکی جنت و جہنم کا فیصلہ چھپا ہے۔ جس دین میں پڑوسی کے حقوق اتنے زیادہ ہوں کہ صحابہ رض کو لگنے لگا کہیں وراثت میں بھی ان کا حصہ مقرر نہ کردیا جائے، اس میں ساس سسر کے حقوق نہ ہوں؟

عجیب بات ہے۔ مانا کہ اس مرد کو بطور شوہر آپ کے حقوق کا پورا خیال رکھنا ہے مگر بحیثیت انسان فطری طور پر وہ آپ سے کیسے خوش رہ پائے گا یا آپ کو عزت کیسے دے پائے گا اگر آپ اسکے والدین کو ناراض رکھیں گی اور انکی عزت نہ کریں گی؟ یہ ناممکن ہے۔
۔
ایک عورت اپنے آنسو دیکھا کر بہت جلد مظلومیت کا میڈل خود پر سجا لیتی ہے مگر ایک مرد شدید ذہنی کرب سے گزرتے ہوئے بھی اپنی داخلی کیفیت کے درست اظہار سے محروم رہتا ہے۔ مجھے غلط نہ سمجھیں، میں سسرال میں کیئے جانے والے مظالم اور حق تلفیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہوں اور اس بات کا قائل ہوں کہ اگر والدین گھر کی بہو پر زندگی تنگ کردیں تو مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو الگ گھر فراہم کرے۔ مگر ساتھ ہی میں پاکستانی معاشرے میں بڑھتے ہوئے اس رجحان سے بھی خوب آگاہ ہوں جہاں ماں باپ کا درجہ دینا تو دور کی بات، ایک لڑکی اپنے ساس سسر کی بات کو اہمیت دینے کو بھی ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتی۔ ساس سسر کا کوئی جائز مطالبہ بھی اسے اپنی ‘فریڈم’ کے خلاف نظر آتا ہے اور ساس سسر کا اپنی اولاد کو کوئی مشورہ دینا اسے اپنی ‘پرائیویسی’ کی موت محسوس ہوتا ہے۔

ابھی صرف رشتہ طے ہوا ہوتا ہے۔ بیاہ کر سسرال میں ایک روز نہیں گزارا ہوتا۔ اسی وقت سے ساس سسر میں سازشی یا ظالم یا مطلب پرست نظر آنے لگتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح میں یہ جدید رجحان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اپنے ماں باپ کے زمانے میں جھانک کر دیکھیئے تو جو زیادتیاں یا حق تلفیاں اس زمانے میں ایک عورت کے ساتھ سسرال کی جانب سے ہوتی تھی اس کا عشر عشیر بھی آج نہیں ہوتی مگر ان عورتوں نے ان زیادتیوں کو سہہ کر گھر بنائے اور آج اکثر گھرانوں میں یہی مائیں ۔۔ باپوں سے زیادہ مستحکم و زورآور نظر آتی ہیں۔ لیکن شاید آج کی لڑکیاں کچھ زیادہ عقلمند ہوگئی ہیں ، اسی لئے اپنے مزاج کے خلاف معمولی بات پر بھی ایسا تلملاتی ہیں کہ مانو ان سے جینے کا حق ہی چھین لیا گیا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات، فی زمانہ آپ کو ایسے بہت سے ‘دانشور’ مل جائیں گے جو آپ کے ہم آواز ہو کر عورت کی مظلومیت اور مرد کے مظالم کے نعرے لگائیں گے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کو اپنے مطلب کا ‘آدھا سچ’ قبول ہے یا پھر تکلیف دہ ‘پورا سچ’۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply