یسریٰ جبین اور ہمارا معاشرہ۔۔سعید چیمہ

انعام رانا ہمارے چیف ایڈیٹر ہیں، ان کے بارے میں پہلا تاثر یہی تھا کہ لاہور میں رہنے والا کوئی بیروزگار ہو گا جو کامیابی سے “مکالمہ” کو چلا رہا ہو گا،  بعد میں حقیقت عیاں ہوئی کہ موصوف تو انگلینڈ میں وکالت کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ان سے محبت کا آغاز ایسے ہوا کہ عرض پرداز جو بھی تحریر لکھ کر بھیجتا وہ من و عن پبلش کر دیتے، ہم ایسے چھٹ بھیے لکھاریوں کے لیے ان سے محبت کی یہی وجہ کافی تھی، مگر ان سے محبت کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ انعام رانا سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمسر (مطلب کہ رانا صاحب کے سر پر بھی بالوں کی بہتات ہے) ہیں، وگرنہ تو نواز شریف سے کوئی مماثلت نہیں،  ان سے محبت میں شدت اس وقت آئی جب انہوں نے کچھ عرصہ قبل  “ڈاکٹرنی، دانشور اور نواز شریف” کے عنوان سے مکالمہ پر ایک تحریر لکھی، بڑے عرصے بعد کسی تحریر نے اپنے سحر میں جکڑا تھا، اب بھی تحریر میں بیان ہوئی کہانی یادوں کے دریچے سے ٹکراتی ہے تو لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے، یہ تو ایک تمہید تھی جو اصل مدعا بیان کرنے سے پہلے باندھنا ضروری تھی، تمہید کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو بتایا جا سکے کہ انعام رانا کے ہاں عرض پرداز ایسوں کا بھی احترام ملحوظ رکھا جاتا ہے اور تحریروں پر قدغن نہیں لگائی جاتی،

چند روز قبل  مکالمہ پر ایک مضمون مہمان تحریر کے طور   پبلش ہوا، لکھنے والی یسریٰ جبین تھیں، مصنفہ کے بارے میں بس یہی معلومات ہیں کہ وہ اسلام آباد میں صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، یسریٰ نے تحریر میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا ذکر کیا تو محسوس ہوا کہ سینے میں زہر آلود خنجر پیوست ہو گیا ہے، واقعہ یہ ہوا کہ یسریٰ جینز پہنتی تھیں، جس کی وجہ سے مردوں کی جانب سے انہیں گھورا جاتا تھا، تنگ آ کر انہوں نے جینز پہننا چھوڑ دی، اب اگر کوئی لڑکی اور وہ بھی یسریٰ ایسے تیکھے اور بھلے نقوش والی لڑکی جینز پہننا چھوڑے تو فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے علی زریون یاد آ جاتے ہیں۔۔۔

کس نے جینز کری ممنوع

پہنو اچھی لگتی ہو۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب بار بار یہ سوال دل کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ ایک عورت جو شٹل کاک برقعے میں ہو اور ایک نے جینز پہن رکھی ہو، تو دونوں کی شکایت یہی ہوتی ہے کہ مردوں کی جانب سے ہمیں گھورا جاتا ہے، اب اس گھورنے کا علاج ہے کیا، نہ تو  برقعہ ایسی دیوار بنتا ہے جو عورت اور مرد کی نظروں کے درمیان حائل ہو سکے اور نہ جینز پہننے سے یہ مسئلہ حل  ہوتا ہے، حل وہی ہے جو الفرقان میں بتا دیا گیا ہے، “اے نبی! مومن مردوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں،”نظریں اگر جھک جائیں تو لڑکی چاہے جینز پہنے یا شٹل کاک برقعہ، گھورنے کا  مسئلہ اپنی موت آپ مر جائے گا، یہاں پر اگر کسی قسمت کی ماری کا ریپ ہو جائے تو ایسوں کی بہتات ہے جو کہتے ہیں کہ اگر لڑکیاں جینز پہنیں گی تو ریپ تو پھر ہوں گے، شاید کوئی شاپنگ مال تھا جس میں ایک فٹ تک بڑھی ہوئی داڑھی اور سر پر سفید ٹوپی سجائے ہوئے ایک بظاہر پڑھے لکھے مولانا (مگر ان کی باتوں سے ساون کی بدلیوں کی طرح جہالت ٹپک رہی تھی) سے ایک لڑکی سوال کرتی ہے کہ لڑکیوں کے جو ریپ ہو رہے ہیں ، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں، یہ صاحب فرمانے لگے کہ اگر آپ جینز پہنیں گی تو ریپ تو یقیناً ہوں گے، جواب سن کر دل چاہا تھا کہ خدا سے شکوہ کر دوں کہ آپ نے ایسے لوگ کیوں پیدا کیے تھے جو اس حد تک ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں، لڑکیوں کے جینز پہننے سے عرض پرداز کو قطعاً کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن لباس/جینز معقول قسم کی تو ہو، ایسی ٹائٹ جینز پہنی جاتی ہیں کہ کولہے واضح   ہونے لگتے ہیں جو کہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے،  اور پھر شاپنگ مال میں کھڑے ان مولانا صاحب ایسوں کے ہاتھ یہ بات آ جاتی ہے کہ جینز ہی ریپ کی وجہ ہیں،  ہمارا معاشرہ وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پسند نہیں کرتا، جس کی وجہ سے بہت سارے مسائل جنم لے رہے ہیں، جب کہ رسالتمآبﷺ نے کہا تھا کہ مومن زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے،   بار بار ذہن پر زور دینے سے بھی کوئی معقول طریقہ نہیں سوجھ رہا جو یسریٰ کو بتاؤں تو وہ اس پر عمل پیرا ہو کر  لوگوں کی دیوار چیر دینے والی نظروں سے بچ سکے،  اگر کسی کے ذہن میں کسی معقول طریقے کی بتی جلے تو براہِ کرم اس کی زیادہ زیادہ سے تشہیر کریں تا کہ عورتوں کو گھورنے کا مسئلہ ختم ہو سکے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply