پیالی میں طوفان (110،آخری قسط) ۔ پیالی میں طوفان/وہاراامباکر

انسان اس وقت اس زمین تک محدود ہے لیکن ہم ہزاروں سال سے اس زمین سے دور ستاروں کو دیکھتے رہے ہیں۔ اب اپنی اس لمبی تاریخ میں ہم پہلی بار اس قابل ہوئے ہیں کہ زمین کے باہر سے خود اپنے آپ کو دیکھ سکیں۔ زمین کے اردگرد زمین کا مشاہدہ کرنے والے اور مشاہداتی سیٹلائیٹس کا ہجوم ہے جس نے ہم سب کو جوڑ بھی دیا ہے اور ہمیں اپنے آپ سے آگاہی کا نیا ہی پہلو دکھا دیا ہے۔ دور سے ہماری تہذیب کے نشان نمایاں ہیں، رات کو شہروں کی روشنیاں، سرد شہروں کے گرد گرم ہوا، زراعت کی وجہ سے زمین کا بدلا رنگ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زمین کے گرد چکر کھاتی چیزوں میں سے صرف ایک بلبلہ ہے جو انسانوں کے رہنے کے قابل ہے۔ یہ عالمی خلائی سٹیشن ہے۔ یہ ہماری تہذیب کو خلا تک لے جاتا ہے۔ بس تھوڑا سا۔ زیادہ سے زیادہ دس لوگ یہاں پر رہائش پذیر ہو سکتے ہیں اور یہ یہاں پر انسانیت کی خلا میں نمائندگی کرتے ہیں، ہر 92 منٹ میں زمین کا ایک چکر لگاتے ہوئے۔ جو مرد و خواتین یہاں پر وقت لگا چکے ہیں، وہ انسانیت کو ایک فرق ہی نظر سے دیکھ چکے ہیں اور اپنی بات اور خیالات کو مکمل طور پر دوسروں تک پہنچا بھی نہیں سکتے لیکن کوشش ضرور کرتے ہیں۔
ان سیٹلائیٹس سے آگے زمین کی وہ مقناطیسی ڈھال ماند پڑتی جاتی ہے جو ہمیں کاسمک شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ وہاں پر ہماری تہذیب کے نشان بھی ماند پڑتے جاتے ہیں۔ اس خلا میں اوپر اور نیچے کا کوئی مطلب نہیں۔ چیزوں کی سادگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز انسانی معیار کے مطابق یا تو بہت سست ہے اور یا بہت تیز۔ سورج کے اندر نیوکلئیر ری ایکشن انتہائی تیزی سے ہو رہے ہیں لیکن سورج خود بہت آہستہ آہستہ اربوں برس کے ٹائم سکیل پر بدل رہا ہے۔ انتہائی چھوٹے ایٹم آپس میں انٹرایکٹ کرتے ہیں اور ان سے نکلنے والے نتائج سیارے یا چاند یا نظام شمسی جیسے ہیں۔ ہماری یہ الجھی ہوئی پیچیدہ تہذیب، اس الجھی ہوئی پیچیدہ دنیا میں وقت اور سائز کے ان سکیلز کے درمیان میں ہے۔
معلوم کائنات میں ہم، انسان، ایک excption ہیں۔
ہم خلا میں دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس خلا میں کوئی ہمیں واپس بھی دیکھ رہا ہو۔ اپنے سیارے سے باہر کسی بھی شے سے ہمارا بڑا رابطہ روشنی کے ذریعے ہے۔ ہماری آنکھ کو ٹکرانے والی ستاروں کی روشنی جو اس آنکھ کے پردے کے کچھ مالیکیول ہلا دیتی ہے، یہ اس باقی کائنات سے ہمارا سب سے بڑا رابطہ ہے۔ اس چھوٹے سے پتھریلے سیارے کی زمین اور کاسموس کے درمیان کی سرحد پر ہم خوبصورت، پیچیدہ اور باشعور باریک سی تہہ ہیں۔ ہم ان آپس میں تین جڑے ہوئے زندگی کے سپورٹ سسٹم کی پیداوار ہیں۔ اور یہ سب سب اس کائنات کی فزکس سے تشکیل کردہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں، یہاں اپنے گھر کے لان میں کھڑا آسمان دیکھ رہا ہوں جہاں بادل تیرتے ہوئے امڈ کر آ رہے ہیں۔ یہ باقی کائنات کو میری نگاہ سے چھپا دیں گے۔ میرے ہاتھ میں ایک پیالی ہے، جو اس زمین سے بنی ہے۔ میں، ایک انسان، اس کائنات کی پیچیدگیوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں، کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں۔ میرے ارد گرد پیٹرن ہیں، ہر قسم کی شکل میں، اور میں ان کو خود چھو کر محسوس بھی کر سکتا ہوں۔ میں نے اپنی نگاہ ہاتھ میں پڑی پیالی کی طرف کی۔ اس میں مائع گھوم رہی ہے۔ انہیں اصولوں کے تحت جو موسم کے ہیں، دودھ چائے میں حل ہو رہا ہے۔ اس پیالی کے اندر طوفان برپا ہے۔ پھر دوبارہ دیکھا تو کچھ اور دکھائی دیا۔ اس مائع کی سطح پر ایک اور پیٹرن بن رہا ہے۔ یہ ویسا ہی چمکدار، خوبصورت اور دلچسپ پیٹرن ہے۔ یہ میرے سر کے اوپر آسمان کا عکس ہے۔
میں اسی چائے کی پیالی کے اندر ایک اور طوفان امڈتے دیکھ سکتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply