• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا خُون اور پانی ساتھ ساتھ بہتے رہیں گے؟/انجینئر ظفر اقبال وٹو

کیا خُون اور پانی ساتھ ساتھ بہتے رہیں گے؟/انجینئر ظفر اقبال وٹو

دریائے چناب انڈیا کا پاور کوریڈور بننے جا رہا ہے جس پر ستر سے زیادہ ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن بنانے کے منصوبے مختلف مرحلوں میں ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار ہمارے منگلا اور تربیلا ڈیم کی مشترکہ طور پر پیدا ہونے والی بجلی سے زیادہ ہوگی۔
انڈیا میں دریائے چناب کی لمبائی پانچ چھ سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں لیکن اتنی کم لمبائی میں اتنے زیادہ منصوبے لگانے کی وجہ سے یہ بہتا دریا مُردہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ دریا میں پانی کا قدرتی بہاؤ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ آبی مخلوق کی تہذیب برباد ہوجائے گی اور وادی کے بہت سے لوگ بے گھر ہوکر دربدر ہو جائیں گے۔
ہماچل پردیش میں جہاں سے اس دریا کا سفر شروع ہوتا ہے وہاں صرف سو کلومیٹر کی لمبائی میں چناب پر 50 ہائیڈروالیکٹرک پاور پلانٹ تعمیر ہورہے ہیں یعنی ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک پاور پلانٹ۔ ریاست جموں اور کشمیر پہنچنے پر یہ صورت حال اور گھمبیر ہو جاتی ہے جہاں چناب پر بڑے سائز کے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف جموں کشمیر میں چناب سے بجلی کی پیداوار 9000 میگاواٹ ہوگی جوکہ پاکستان کی ہائدڑوالیکٹرک کی کل پیداوار کے برابر بنتی ہے۔
ہندوستان بجلی کے ان منصوبوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستانی اعتراضات کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اِن کا موقف ہے کہ چونکہ وہ پانی کا رُخ دریا سے دوسری طرف نہیں موڑ رہے بلکہ چلتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اِس لئے پاکستان کو اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر پنجال کے قدرتی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے چناب کے پانی کو باقی ہندوستان کی طرف موڑنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ وادی میں دریائے چناب کی قدرتی ڈھلوان بھی ایک کلومیٹر کے بعد 24 میٹر ہے جسے استعمال کرکے انڈیا بجلی بنانا چاہتا ہے۔
تاہم صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں۔ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے دریا پیر پنجال کے نیچے سے گزار کر کے جانا اب تکنیکی طور پر ممکن ہے گو یہ مہنگا پڑے گا۔ تاہم جب مودی 2016 میں اُڑی واقعے کے بعد یہ اعلان کررہا ہو کہ “خُون اور پانی اب ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے” تو کچھ بھی ممکن ہے۔ بھارتی منصوبوں پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب خاموشی سے اپنے حق سے دستبردار ہونا ہے۔
ہندوستانی موقف پر یوں بھی سوالیہ نشان اُٹھتا ہے کہ انڈیا کے سنٹرل واٹر کمیشن نے حال ہی میں وادی میں دریائے چناب پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ نوٹ کیا ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشئیرز کا پگھلنا ہے۔ لہذا پانی کی اضافی فراہمی سے وادی میں نئے بننے والے تمام ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی استعداد پچیس فی صد بڑھا دی گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دریائے چناب سے انڈیا سے مرالہ کے مقام پر پاکستان میں آنے والا پانی ہر سال کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے ۔لہذا پاکستانی اعتراض بالکل جائز بنتا ہے کہ یہ اضافی پانی پاکستان کیوں نہیں پہنچ رہا؟
اگر انڈیا سچے دل اور بغیر کسی دوغلے پن کے دریاوں کے قدرتی بہاؤ پر یہ پاور پلانٹ بنا رہا ہوتا تو اس سے تو اُلٹا پاکستان میں دریائے چناب میں پانی کی صورت حال سنبھلنی چاہئے تھی کیونکہ ان پاور پلانٹس پر بجلی پیدا کرنے کے لئے پھر بھی کچھ نہ کچھ اسٹوریج ضرور برقرار رکھی جاتی ہے جو کہ پانی کی قلت کے دوران کام آتی ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے مابین تمام تر کشیدگی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ ہی واحد ایک ایسی دستاویز تھا جس کی بنیاد پر دونوں ملک اپنے پانی کے جھگڑے خوش اسلوبی سے نپٹانے رہے ہیں ۔ حتی کہ چناب پر بننے والے ان ہائیڈروالیکٹرک پلانٹس پر بھی پاکستانی وفد پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی قیادت میں 2019 میں دورہ کرچُکا ہے ۔ تاہم اس کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور اب جنوری میں انڈیا کی طرف سے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پر دئے گئے نوٹس کے بعد ان میں اور تناو آگیا ہے۔
کاش کہ دونوں ملکوں کی لیڈرشپ کا اتنا وژن ہوتا کہ وہ اس معاہدے کو بنیاد بنا کر پانی کو بہنے دیتے اور خُون خرابے کو روک لیتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply