برین ڈرین (1)-محمد اسد شاہ

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے پاکستان سے دوسرے ممالک میں منتقل ہونے والے افراد کے متعلق فکر انگیز اعداد و شمار پیش کیے ہیں- رواں سال 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں 3 لاکھ 95 ہزار 166 افراد تلاشِ روزگار کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے- ان میں سب سے بڑی تعداد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے، جہاں سے 2 لاکھ 23 ہزار 90 افراد گئے- خیبر پختونخوا سے 1 لاکھ 16 ہزار 794، سندھ سے 30 ہزار 946، آزاد کشمیر سے 15 ہزار 136، بلوچستان سے 4 ہزار، اسلام آباد سے 4 ہزار 513، جب کہ گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں سے 685 افراد بیرونِ ملک منتقل ہوئے- اعداد شمار بتاتے ہیں کہ 2015 میں 9 لاکھ 46 ہزار 571 افراد نے ملک چھوڑا، جو ایک سال میں بیرونِ ملک سکونت اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے- 2020 میں 2 لاکھ 25 ہزار 213، 2021 میں 2 لاکھ 88 ہزار 280، اور 2022 میں 8 لاکھ 32 ہزار 339 پاکستانیوں نے بیرونی ممالک میں سکونت اختیار کی-

Advertisements
julia rana solicitors london

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ 1971 میں قائم ہوا- تب سے اب تک 1 کروڑ 28 لاکھ 56 ہزار 519 افراد پاکستان سے بیرونی ممالک میں منتقل ہو چکے ہیں- بیرون ملک پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد سعودی عرب میں مقیم ہے- اس کے بعد متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، ملائیشیا، بحرین، برطانیہ، ترکی، یونان، جنوبی کوریا، چین، جاپان اور امریکا کا نمبر آتا ہے- پاکستانیوں کی بڑی تعداد جرمنی، فرانس، ہالینڈ، بیلجیم اور سویڈن سمیت یورپی ممالک میں بھی آباد ہے- آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے- روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں میں غالب تعداد مزدوروں، ڈرائیورز، مینیجرز، سیلز مین، مستریوں، ٹیکنیشنز، سپروائزرز، الیکٹریشنز، بڑھئیوں، رنگ سازوں اور مکینکس کی ہے- یہ وہ لوگ ہیں جو دست کار یا ہنر مند ہیں اور جسمانی مشقت کے ذریعے رزق کماتے ہیں- ہمارے دین نے ہاتھ سے کام کرنے والوں کو اللّٰہ کا دوست قرار دیا ہے- دست کاروں کے علاوہ پاکستانی انجینئرز، اکاؤنٹنٹس، نرسز، ڈاکٹرز، ماہرینِ کمپیوٹر، وکلاء، صحافی، اساتذہ کرام اور ڈیزائنرز بھی ان ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں-
پاکستانی تارکینِ وطن کی موجودگی دوسرے ممالک میں ہمہ قسم سرگرمیوں میں نظر آتی ہے- تعلیمی، سائنسی، سیاسی، تقافتی، تجارتی اور کاروباری میدانوں میں پاکستانی تارکین وطن نے اپنی اہمیت ثابت کی ہے- برطانوی دارالحکومت لندن دنیا کے خوب صورت ترین، رومان پرور، تاریخی، ثقافتی اور علم دوست شہروں میں سے ایک ہے جہاں گزشتہ مسلسل سات سالوں سے ایک پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کے 53 سالہ بیٹے صادق امان خان منتخب میئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں- وہ برطانوی لیبر پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں- پہلی بار 2016 میں، اور دوسری بار 2021 میں وہ لندن کے میئر منتخب ہوئے- اس سے قبل وہ لندن میں اپنے پیدائشی ٹاؤن ٹوٹنگ سے مسلسل گیارہ سال تک لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمان منتخب ہوتے رہے، اور ٹرانسپورٹ کے وزیر مملکت بھی رہے- میئر منتخب ہونے پر وہ پارلیمانی رکنیت سے مستعفی ہو گئے- صادق خان سے قبل بورس جانسن لندن کے میئر تھے جو بعد ازاں برطانوی وزیراعظم منتخب ہوئے- پاکستانی نژاد حمزہ یوسف اس وقت سکاٹ لینڈ کے منتخب فرسٹ منسٹر ہیں- یہ عہدہ وزیراعظم کے عہدے کی ایک شکل ہے- حمزہ یوسف کو اس عہدے پر سکاٹ لینڈ کی منتخب پارلیمان نے 29 مارچ 2023 کو منتخب کیا- بہت سے پاکستانی تارکین سالہا سال سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا میں پارلیمان کے لیے منتخب ہوتے آ رہے ہیں- اس وقت بھی پاکستانی نژاد شاہد احمد خان امریکی صدر کے مشیر ہیں- بہت سے پاکستانی تارکین عرب ممالک ، یورپ اور امریکا میں یونیورسٹیوں میں تعلیم دے رہے ہیں، اور دیگر سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں- حتیٰ کہ خلائی اور ایٹمی سائنس کے اداروں میں بھی پاکستانی موجود ہیں-
کسی ملک سے دماغی کام کرنے والوں اور ذہین افراد کا چلے جانا “برین ڈرین” کہلاتا ہے- برین ڈرین کا رجحان حد سے بڑھ جانا نقصان دہ ہوتا ہے- کیوں کہ خود اپنے وطن کو بھی تو ذہین و فطین افراد کی ضرورت ہوتی ہے- چناں چہ برین ڈرین کی زیادتی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اپنے وطن میں ان لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع نہیں مل رہے، اگر ملازمتیں ہیں تو انھیں ان کی خواہش کے مطابق معاوضے نہیں مل رہے، وہ لوگ ان تنخواہوں پر مطمئن نہیں یا مزید دولت کمانے کے خواہش مند ہیں- اگر ایسا ہے تو یہ چیز فکر انگیز ہے- پاکستانی منصوبہ سازوں کو اس پر تفصیلی غور کرنا چاہیے، ان وجوہ کا جائزہ لینا چاہیے اور اگر ایسے مسائل موجود ہیں تو ان پر قابو پانے کی حکمت عملی وضع کرنا بہت ضروری ہے- دوسری طرف یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ دراصل مزید سے مزید دولت کے لالچ میں بیرون ملک گئے ہوں، یا ان ممالک کے موسموں، ماحول، ثقافتوں، طرزِ معاشرت یا دیگر عوامل نے انھیں وہاں منتقل ہونے کی طرف راغب کیا ہو- بعض لوگ مخصوص سیاسی و مذہبی ماحول سے فرار کے لیے بھی ملک سے منتقل ہونا پسند کرتے ہیں- گزشتہ چند دہائیوں میں ایم کیو ایم کے بہت سے کارکنان، بلوچستان اور پختون قبائلی علاقوں کے بعض لوگوں، اور اہل تشیع کی ایک بڑی تعداد کو بھی یورپ یا امریکا منتقل ہونا بہتر لگا- اسی طرح قادیانی کمیونٹی کے لوگ بھی بیرونی ممالک میں آباد ہونا پسند کرتے ہیں- چناں چہ تمام عوامل کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے- ہر طبقے کے لوگوں کے لیے اپنے ملک میں سازگار اور پر امن ماحول فراہم کرنا ریاست و حکومت کا فرض ہے- بعض لوگ سراسر لالچ، عیاشی یا مادر پدر آزاد ماحول کے عشق میں بھی ملک سے نکلنے کے خواہش مند ہوا کرتے ہیں- اس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہو سکتی-
روزگار کے لیے دوسرے ممالک میں جانے والوں سے ملک کو معاشی فائدہ بھی ہوا کرتا ہے- یہ لوگ وہاں سے رقوم کما کر اپنے اہل خانہ کو بھیجتے ہیں- اس طرح ملک میں سرمایہ آتا ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے- لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بیرون ملک منتقل ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے باوجود پاکستان کی طرف ترسیلات زر میں گزشتہ تقریباً 8 سالوں میں کمی دیکھی جا رہی ہے- مثلاً جولائی 2021 تا جون 2022 کے دوران 31 ارب 27 کروڑ 88 لاکھ ڈالرز، جب کہ جولائی 2022 تا جون 2023 کے دوران 27 ارب 2 کروڑ 43 لاکھ ڈالرز کی ترسیلات زر پاکستان آئیں- ایک طرف برین ڈرین کی شرح میں مسلسل اضافہ اور دوسری طرف ترسیلات زر میں مسلسل کمی بہت خطرناک معاملہ ہے- اس پورے منظر کا بغور مطالعہ از حد مطلوب ہے- ترسیلات زر میں کمی کی وجوہات بھی کچھ خفیہ نہیں- اس پر ہم بعد میں بات کرتے ہیں – پہلے ہم یہ دیکھیں کہ بھارت جیسے بڑے ملک سے بھی سالہا سال سے برین ڈرین جاری ہے- دنیا بھر میں بیرونی ممالک میں مقیم افراد میں بھارت ہم سے بہت آگے ہے- یورپی ممالک کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین جیسے مسلم ممالک میں بھی بھارتی تارکین وطن کی مجموعی تعداد پاکستانیوں سے کئی گنا زیادہ ہے- برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے 50 فی صد سے زیادہ سرکاری ہسپتالوں کے سربراہان، یعنی میڈیکل سپرنٹینڈنٹس بھارتی نژاد ڈاکٹرز ہیں- حتیٰ کہ موجودہ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک بھی ہندو ہیں، جن کے والدین بھارت سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے- اسی طرح امریکا کے خلائی تحقیقی ادارے ناسا میں بھارتی سائنس دانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے- بھارتی تارکین وطن برطانیہ کے علاوہ امریکا، کینیڈا، اور یورپی ممالک تک کے اعلیٰ ترین جمہوری سیاسی عہدوں مثلاً نائب صدر، صدارتی مشیر، سینئر منسٹرز تک پہنچے ہوئے ہیں- بہت سے ممالک میں اہم وزارتوں پر بھارتی تارکین فائز ہیں- اسی طرح بھارتی سکھ عرب ممالک، امریکا اور یورپ تک میں سیاسی، ثقافتی اور تجارتی میدانوں میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں- بھارتی سکھ اپنے آبائی ملک کی تقریباً ہر حکومت سے نالاں رہتے ہیں-(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply