ریاست تو مر چکی ہے۔۔۔عمار کاظمی

گزشتہ کالم ’’وزیراعلی، وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے سوال‘‘ بہت زیادہ پڑھا گیا، سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، سینے میں انسانیت کے لیے دردِ دل رکھنے والے ہر  ذی شعور صاحبِ اولادانسان نے اسکو ری ٹویٹ ، پوسٹ اور شئیر کیا۔ دوستوں نے فون کیے، اظہار افسوس کے پیغامات بھیجے۔ حکومت سے نوٹس لینے کی درخواستیں کیں، شارٹ نوٹ لکھے، سید سبط حسن گیلانی نے کالم تحریرکیا، ویر کلاسرا نے اسے ری ٹویٹ اور شئیر کیا، ویر محسن آرائیں اورشہزاد جوئیہ نے اور بہت سے دوستوں نے( جن کے نام اس ایک کالم میں لکھنا ممکن نہیں) اس مشکل گھڑی میں میرے ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانیاں کروائیں، میں ان سب دوستوں کا اورویر احمد رضا (جو واقعہ کے فوراً بعد تھانہ وفاقی کالونی پہنچنے والا اکلوتا دوست تھا) کابے حد ممنون و مشکور اور احسان مندہوں۔ مگر افسوس مجھ غریب کالم نویس، پنجابی نیشنلسٹ اور پنجاب نیشنل موومنٹ کے بانی چئیر مین ،ایک فوجی کے بیٹے ، ایک جانباز ایس ایس جی کمانڈر کے بھائی اور دو برگیڈئیرز کی بھانجی (جن میں ایک پاکستان ایس ایس جی کا باپ مانے جانے والا شہید برگیڈئیر ٹی ایم شاہ ہے) سے ہوئی زیادتی اور کھلی دہشت گردی پر نہ حکومت ِ وقت کے کان پر جوں رینگی نہ سموسوں پر ازخود نوٹس لینے والی عدلیہ جاگی نہ سویلین معاملات پر سیاسی بیان دینے والے آئی ایس پی آر کی کوئی ٹویٹ سامنے آئی۔
کالم پر کم و بیش اٹھانوے فیصد لوگوں نے ہماری حمایت کی تاہم ایک دو فیصد ایسے بھی تھے جنھوں نے اظہار افسوس کی بجائے تنقید اور جھوٹے من گھڑت الزامات کا سہارا لیا۔ یقیناً یہ لوگ جواد یا منہاج القرآن ادارہ کے حامی وکیل اور رفقاء ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ کسی غیر جانبدارشخص سے تو یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ وہ سارا واقعہ پڑھ کر بنا افسوس تنقید اور گھٹیا الزامات پر اتر آئے۔ خاندان رسالت سے ہوں اور دوسروں کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھتا ہوں لہذا انکے گھٹیا  جھوٹے بے بنیادالزامات کے جواب میں کوئی گھٹیا بات ہرگز نہیں کہوں گا ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں دوبارہ بھی لکھ رہا ہوں جواد صاحب کی صاحبزادی ہماری بھی بیٹی ہے۔البتہ ادارہ کے ترجمان کے جو بلواسطہ پیغامات مجھ تک پہنچے کہ ان سے فون پر رابطہ کیا جائے، منہاج القرآن ہیڈ آفس آ کر اپنے لیے انصاف مانگا جائے، غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے اور ساتھ پیغام فارورڈ کرنے والے نے کھلے عام یہ بھی کہہ دیا کہ ہم نے غیر جانبدار تحقیقات کی ہیں جن میں ہم( میرے بچے) قصوروار پائے گئے اور یہ کہ یہ عمار صاحب ذاتی معاملے پر منہاج القرآن کا نام مت لیں یا انھیں ذاتی جھگڑے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا یا ادارے کا نام اپنے کالم میں نہیں لکھنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک منہاج القرآن اور سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے آخری چند سطور لکھنے کی بات ہے اس پر عرض ہے کہ اگر صرف اکیلا جواد وہاں اپنے ذاتی ملازمین کیساتھ لڑنے آتا تو یقیناً میرے لیے وہ اُسکا ایک پرسنل فعل ہوتا ۔مگر اسکے ساتھ سانحہ ماڈل ٹاون کا مدعی ہونے کے ناطے سرکاری طور پر ملے چھ پولیس اہلکار اور منہاج القرآن کےسات آٹھ مسلح باوردی گارڈز تھے ۔ ایسے میں، میں جو خود سانحہ ماڈل ٹاون کے وقت موجود نہیں تھا (سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کے حق میں میری درجنوں تحریریں اور کالم موجود ہیں) اُسکے ذہن میں لا محالہ یہ فطری سوال اٹھا کہ کہیں میں اپنی یکطرفہ رائے میں غلط تو نہیں تھا؟ میرے ساتھ ہوئے اس سلوک اور تجربے نے یہ فطری سوال اٹھایا اور مجھے یہ سب سوچنے پر مجبور کیا۔ باقی حسین ابنِ علی کی نسل ہوں، ماڈل ٹاؤن سانحہ کے چودہ مقتولین کیساتھ کل بھی کھڑا تھا آج بھی کھڑا ہوں۔اور لگائے گئے بے بنیاد ،غیر اخلاقی، نیچ اور جھوٹے الزامات پر صرف اتنا کہوں گا کہ جب بِٹیا خود اپنے والد کو بتا رہی تھیں کہ اس نے بوتل جان بوجھ کر میری طرف نہیں اچھالی یا ماری تھی تو یہ گھٹیا الزام لگانے والوں کو کچھ تو شرم کرنی چاہیے تھی۔
باقی جو مجھے کہا جا رہا ہے کہ تم منہاج القرآن سیکریٹیریٹ سے رابطہ کرو، اپنی عرضی دو۔ تو مجھے بتاؤ تمھارا ادارہ کیا سپریم کورٹ ہے؟ ہائی کورٹ ہے؟ سیشن عدالت ہے؟ تھانہ ہے؟ گورنر ہاؤس ہے؟ صدارتی محل ہے؟ وزیر اعظم ہاؤس ہے؟ کسی بادشاہ کا دربار ہے؟ کیا آئینی دستوری حیثیت ہے؟ کس حیثیت میں وہاں بلایا جا رہا ہے؟ تمھارے غنڈے دن دیہاڑے تمھارے ہیڈ آفس سے کئی کلومیٹر دورایک اکیڈمی میں ایک استاد اور اسکی فیملی سے مارپیٹ کر کے چلے جائیں اور وہ انصاف کی بھیک مانگنے تمھاے ہیڈ آفس حاضر ہوں؟ کس حیثیت میں یہ مطالبہ کر رہے ہو؟
سچ پوچھیں تو اس سارے واقعے کے بعد میں اور میرا کنبہ ابھی تک ہراساں ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ منہاج القرآن جائیں مگر ہمت نہیں پڑی کہ وہاں پھر کوئی بدمعاشی نہ کر گزریں۔ جی ون مارکیٹ کے عقب میں نہر کے قریب جے پی سکول میں قائم وژن اکیڈمی منہاج القرآن سے کافی دور ہے۔ ذہن میں یہی کھٹکا لگا رہا کہ جب انکے مسلحہ گارڈز منہاج القرآن سے اتنی دور آ کر یہ سب کر سکتے ہیں تو وہاں نہ جانے کیا کریں گے۔
علامہ ڈاکٹرطاہر القادری صاحب کی صاحبزادی میری بیگم کی سٹوڈنٹ رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خود ایک استاد رہے ہیں اور وہ اپنی بیٹی کی استاد اسکے بچوں اور شوہر سے کیے گئے اس سلوک پر شاید خود وہ کچھ ضرور سوچیں جو دوسرے اسوقت نہیں سوچ رہے۔ منہاج القرآن کے رفقا ء سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر صاحب تک ہمارا ایک ہی پیغام پہنچائیں، انھیں بتائیں آپکی صاحبزادی کی ٹیچر کی فیملی کیساتھ یہ سب ہوا ہے ۔ اور یہ عمار کاظمی وہی ہے جس سے آپ نے اپنی بیٹی کے کہنے پر اپنے ڈرائنگ روم میں ملاقات کی اور جناب سیدہ پر لکھی اپنی کتاب ہدیہ کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جواد کو حکم دیں کہ وہ اسی طرح گارڈز کے ہمراہ اوژن اکیڈمی آ کر سب کے سامنے میرے بچوں اور انکی والدہ سے معافی مانگے جیسے وہ مارپیٹ کرنے آیا تھا۔ اور ان گارڈز کو بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے کو کہے جنھوں نے میرے بچوں پر تشدد کیا، میرےاُس معصوم کے ہونٹوں سے خون نکالا جسکے میں پاؤں چومتا ہوں۔میرے بچے میرا خاندان ہراساں ہے، اُنکے حوصلے پست ہیں کہ ہم ان بدمعاشوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے، ہم کمزور، لاچار بے سہارا ہیں۔چھوٹا بیٹا کتنے دن اکیڈمی نہیں گیا ۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ان سب سے، سب کے سامنے معافی مانگنے کا کہیں تاکہ میرے اور میری فیملی کے سینوں پر لگے زخموں پر کچھ مرحم رکھی جا سکے۔میرے بچوں کے پست ہوتے حوصلوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ جو ذلت کا احساس ہمیں انکی طرف سے ملا وہ بہت گہرا ہے۔ اس سب کے بعد یہ انکا فرض بنتا ہے کہ یہ ہماری دلجوئی کریں نہ کہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے ثبوت کے طور پر ادارہ منہاج القرآن والے ہمیں اپنے دربار میں بلائیں۔اگر آپ واقعی اہلبیت کے ماننے والے ہیں اور ایک استاد کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں تو ایک سید زادی اور اُسکے خاندان کواپنی بپتا سنانے کے لیے اپنے ہیڈ کوارٹر بلا کر دربار یزید کی یاد تازہ مت کریں۔ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اس سلسلے کا آخری کالم ہے کیونکہ یہ واقعہ جتنی بار دوہرایا جاتا ہے اتنے ہی منفی اثرات میرے بچوں کی نفسیات پر چھوڑ جاتا ہے۔ اگر ڈاکٹرعلامہ طاہر القادری صاحب ہماری دادرسی اور دلجوئی کر سکیں تو ہم تہہ دل سے انکے اور ادارہ منہاج القرآن کے شُکر گزار ہونگے اور سب کو دل سے معاف کر دیں گے ورنہ ہم کمزور اس دنیا میں انکا کچھ نہیں کر سکتے،بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنے ساتھ ہوئی اس زیادتی کا مقدمہ روزِ محشر،ربِ کعبہ، اُسکے حبیب اور اپنے نانا کی عدالت میں ضرور پیش کریں گے۔ آخر میں، میں اس ملک کی عدلیہ ، پنجاب و وفاقی حکومت اور فوج اور ان سب کے حمایتیوں کو فقط اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ اس سب کی التجااب ہم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ریاست تو مر چکی ہے۔
اور یقیناً اسے وفات پائے برسوں بیت چکے ہیں۔یقیناً منہاج القرآن کے چودہ شہداء کی حقیقی لواحقین کے سامنے میرے دکھ میرےواقعہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یقیناً یہ ساہیوال واقعہ سے لال مسجد کی مس ہینڈلنگ اور اکبر بگٹی سے شہید محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل، شہید بھٹو کی پھانسی، لیاقت علی خان کے قتل اور جناح صاحب کی کراچی کی سڑکوں پر خراب ایمبولینس تک یہ مردہ ہی تھی یقیناً ہم احمق ہی ہیں جو ہر نئے واقعہ اور سانحہ پر اسکے مردہ جسم کو جنجھوڑ کر زندگی تلاش کرنے لگتے ہیں!

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply