پاکستان کی شوبز انڈسٹری/چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

دوست جانتے ہیں کہ اخبارات کے نیوز روم میں ملازمت کیلئے آنے والے نوآموز سب ایڈیٹر کو سب سے پہلے شوبز اور کامرس ڈیسک پر بھیجا جاتا ہے، بنیادی کام سکھانے کی بہترین جگہیں یہی دو ڈیسک ہیں کیونکہ اس میں معمولی غلطی تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اگنور کر دی جاتی ہے، میں نے بھی شوبز ڈیسک پر کچھ عرصہ کام کیا، اس وقت ہم کولیگز کی دلچسپی کا سب سے اہم موضوع پاکستان اور بھارت انڈسٹری کے ڈراموں کا موازنہ ہوا کرتا تھا کیونکہ ان دنوں سٹار پلس ڈرامے پاکستان کے ہر تیسرے گھر میں پورے زور شور  سے دیکھے جاتے تھے اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے اپنے عروج کے بعد زوال کی جانب گامزن ہو چکے تھے۔

ہم دوست آج بھی اسی موازنے پر اکثر بات کرتے ہیں اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ آج بھی پاکستان کے ڈرامے بھارتی ڈراموں سے بدرجہا بہتر ہیں، بھارتی ڈراموں کو اس وجہ سے پسند کیا جاتا ہے کیونکہ ان میں آپ کو گلیمر غالب ملے گا جبکہ پاکستانی ڈراموں میں ہم گلیمر ایک حد تک ہی شامل کر سکتے ہیں، اس کے باوجود آپ دیکھیں کہ پاکستان کے ڈرامے آج بھی بھارت سے کہیں بہتر ہیں اور دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں۔

بھارتی ڈراموں کی کہانیاں    گھسی پٹی ساس بہو کے جھگڑے وغیرہ سے باہر نہیں ہوتیں، آج بھی پاکستان میں ایک اوسط درجہ کا ڈرامہ رائٹر بھارت کے اچھے ڈرامہ رائٹر سے بہترین ہے۔

البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ گائیکی اور ڈانس بھارتیوں کو گُرتی میں ملتے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔  فلموں کی جانب آئیں تو بھارتی فلم انڈسٹری آج دنیا بھر میں راج کر رہی ہے، بھارتی فلم دنیا بھر میں ریلیز ہوتی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک فلم پر اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں جبکہ ہم چند کروڑ روپے میں ایک پوری فلم کھڑی کر دیتے ہیں لہذا کوالٹی اور معیار میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں آج بھارتی گانے اور فلمیں دیکھی جاتی ہیں، فلم بھارت میں ریلیز ہو رہی ہوتی ہے پاکستانی قوم کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔

بھارت کی شوبز انڈسٹری کا بجٹ اربوں ڈالر سالانہ ہے اور انکی حکومت پورا پورا سپورٹ کرتی ہے جبکہ پاکستان کی شوبز انڈسٹری کیساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، بھارت میں بےشمار ادارے ہیں جو اداکاری اور گائیکی سکھاتے ہیں جبکہ پاکستان میں بےتحاشا ٹیلنٹ ہے مگر وہ اس وجہ سے ضائع ہو رہا ہے کہ ہمارے ہاں بس دو چار ہی ایسے آرٹ اینڈ کلچر کے ادارے ہیں جو تقریباً اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔

یہ دور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا دور ہے شوبز انڈسٹری آج کسی بھی ملک میں بہت اہمیت کی حامل انڈسٹری ہے جو اپنے ملک کیلئے سالانہ اربوں ڈالر کما کر دیتی ہے اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آرٹ اور کلچر کے کم از کم پچیس سے تیس ادارے تمام بڑے شہروں میں کھولے جائیں جہاں نوجوان جو اداکاری میں قدم جمانا چاہتے ہیں انھیں سیکھنے کا موقع دیا جائے تا کہ پاکستان کی شوبز انڈسٹری کو فروغ دیا جا سکے، پاکستان کا بےپناہ ٹیلنٹ سڑکوں اور گلیوں میں رُل رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کی شوبز انڈسٹری کو فروغ دے تاکہ یہ انڈسٹری بھی پاکستان کیلئے کماؤ پُت ثابت ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ یہ کہیں گے یہ بےحیائی ہے، انکی بات درست ہے مگر اس پر  بھی غور کیجیے کہ آج پاکستان کے ہر دوسرے تیسرے گھر میں بھارتی ڈرامے اور فلمیں دیکھی جاتی ہیں بھارتی گانے بڑے شوق سے دیکھے اور سُنے جاتے ہیں کیا یہ بہتر نہیں کہ اسکی جگہ پاکستان کے معیاری ڈرامے اور فلمیں دیکھی جائیں، پاکستانی اور بھارتی ڈراموں میں بےحیائی کا موازنہ کر لیجیے، دوسرا اعتراض یہ ہے کہ شوبز کی کمائی حرام ہے، یہ درست ہو سکتا ہے۔۔ آپ یہ بھی دیکھیں کہ پاکستان کا پورا معاشی سسٹم سود پر چل رہا ہے، المیہ تو یہ ہے کہ ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے ہم آئی ایم ایف  سے سود پر پیسے لینے کیلئے مرے جا رہے ہیں، اگرچہ اس کا کوئی موازنہ بنتا تو نہیں ہے مگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شوبز کی کمائی کم از کم سود کی کمائی سے تو سو درجے اچھی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply