پُرفکر تخیل/ڈاکٹر مختیار ملغانی

جرمن فلاسفر ہائیڈیگر کے بقول انسانی تاریخ میں ادوار بدلتے رہتے ہیں، کبھی یہ علم و فہم کی چادر اوڑھتے ہیں، کبھی عمل و فعالیت کا روپ دھارتے ہیں تو کبھی حماقت کی تصویر پیش کرتے ہیں، اسی نکتے کو لے کر ایک فرانسیسی فلسفی (جن کا تین سال قبل انتقال ہوا) نے کہا کہ اس وقت انسانیت حماقت کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ۔
ہم آجکل الگارتھم کے دور میں جی رہے ہیں، الگارتھم ذرائع ابلاغ کی مدد سے پوری دنیا میں پھیلا دیئے گئے ، یہ وہ اصول و ضوابط ہیں جن کے توڑنے کا مطلب دنیا سے پیچھے رہ جانا ہے، موٹیویشنل سپیکرز اور نفسیات و تجارت کے کوچز کی رٹی رٹائی باتوں کو دہرانا ہی آج کا فیشن ، اہم ترین موضوع سخن اور علم و حکمت کی علامت ہے، ایسے میں کوئی عظیم فکر سماج میں نہیں پنپ پاتی، ٹائم مینجمنٹ اور مارکیٹنگ کے اصولوں نے اس پر آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔
اعلی تخیل درحقیقت تضاد کا منطقی نتیجہ ہے، یہ پیراڈوکس ہے، ڈائیلاگ ہے، ڈائیلاگ اپنی اصل میں پیراڈوکس ہے۔ الگارتھم میں نیا تخیل سامنے نہیں آسکتا، الگارتھم کا ٹوٹنا ہی نئی فکر سامنے لاتا ہے،
” نظم و ضبط احمقوں کی روش ہے، جینیئس افراتفری و بے ضابطگی میں پنپتا ہے”
غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ قدیم دور علم و فہم کا دور تھا، مصری، یونانی، سندھی، رومی تہذیبوں کی چھاپ آج تلک ہمارے ہر سماجی، ادبی، سیاسی اور علمی پہلو میں موجود ہے، ایسا اس لئے ہے کہ وہ لوگ وسیع النظر ڈائیلاگ کے قائل تھے، الگارتھم سے آزاد تھے، سوچ کسی اصول کی پابند نہ تھی ۔
لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو قدرے کرخت ہے، انسانی سوچ کو ایک ہی مخصوص اور رائج سمت میں ڈالنے کا سہرا جمہوریت کے سر ہے، ہیومینزم نے انسانوں کے حقوق اور برابری کا پرچار کیا اور اس کے اچھے نتائج دیکھنے کو ملے، لیکن فنون لطیفہ اور اوب و علم کی معراج وہاں سے ابھرے گی جہاں برابری کی بجائے تقسیم کا راج ہوگا، جہاں غریب یا غلام بھی موجود ہوں، جہاں ہر انسان کو برابر کے حقوق نہ دیئے جائیں، جب ہم کسی بھی عظیم تخلیق یا عظیم خیال کو دیکھتے ، سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی خوشبودار گلاب کی خوشبو سے محظوظ ہو رہے ہوں اور گلاب وہیں اگے گا جہاں زمین پر کھاد کی صورت گوبر موجود ہوگا، گوبر سے ہم جتنی بھی آنکھ چرا لیں اس کی اہمیت اور موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ معاشرے میں اگر سب کو گلاب بنانے کی کوشش کی جائے تو گوبر ناپید ہوتا جائے گا، نتیجتاً بغیر خوشبو کے گلاب جنم لیں گے، سب ایک جیسے، سب لبھانے کی صفت سے محروم ۔
فرانسیسی ادیب گوستاو فلابیئر نے ایک دلچسپ بات کی، کہ سیسیرو سے لے کر مارک اوریلی تک کے درمیان کا وقت ہی ایسا وقت ہے جس میں انسان واقعی آزاد سوچ رکھتا ہے، سیسیرو سے پہلے خداؤں کی موت واقع ہو چکی تھی، اور مارک اوریلی سے پہلے تک پیغمبروں کا ظہور ابھی نہ ہوا تھا، یہی وہ لمحہ تھا جب انسانی فکر پر کوئی بیرونی پہرہ نہ تھا، یہاں اقبال سوکڑی صاحب کی غزل کا ایک شعر یاد آگیا،
ہکو صفحہ ہا کافی ہدایت کیتے
کہیں صحیفے دا ورقہ الٹڑاں نہ ہا۔۔۔
انسان اپنے فطری ماحول میں ہی بہترین کارکردگی دکھا سکتا ہے، سماجی اونچ نیچ ایک حقیقت ہے ، کچھ دوست امریکہ اور مغرب کی مثال دیں گے جہاں جمہوریت اور انسان دوست رویوں نے بہترین نتائج دیئے ، لیکن اعلی تخیل کا مغربی زمانہ بیسویں صدی کو کہا جا سکتا ہے، اکیسویں صدی میں یہ جمہوری اور انسانی رویے غیر ضروری لچک دکھاتے ہوئے ہیومینزم اور فیمینزم کے ہاتھوں یرغمال ہو چکے، اب عظیم فکر کے فقدان کا دور ہے، پرانے مفکروں کی تشریحات سے بات آگے نہیں نکل رہی۔ جہاں آسمانی خداؤں نے سوچ پر پہرے بٹھائے، وہیں انہی خداؤں کے خلاف جدوجہد کرنے والے زمینی خدا کا روپ دھارتے جا رہے ہیں اور یہ اول الذکر کی نسبت زیادہ بانجھ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply