کشمیر کیوں نہ روئے؟۔۔۔عزیز خان

کِھچی ہوئی ہے میرے دل پہ یہ خونی سُرخ لکیر

تو ہی بتا دے کب ٹوٹے گی پاؤں کی زنجیر
اے میرے کشمیر !

آج بُہت دنوں بعد کُچھ لکھنے کو دل کیا، جب سے کشمیر کے بارے میں خبر سُنی دل بُجھ سا گیا، انسانیت کی تذلیل دیکھےجارہی ہے یہ دنیا۔جس میں ہم سب بھی شامل ہیں، 19 دن سے کرفیو ہے نماز جمعہ تو درکنار نماز عید کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔
کتنی شہادتیں ہوئیں، کتنی عزتیں لُٹیں ،کتنے زخمی ہوئے، کسی کو کُچھ معلوم نہیں، تمام مواصلاتی رابطے بند ہیں، کون کس حال میں ہے کسی کو نہیں  پتا۔

میرے بہت سے دوستوں نے مُجھ سے پوچھا آپ سیاست پر لکھتے ہیں، پولیس پر لکھتے ہویں،آپ کشمیر پر کیوں نہیں لکھتے ؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ذہن موف ہے کُچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھوں ۔۔

کشمیر کی کہانی 1947 سے شروع ہوئی جب سے میں نے ہوش سنبھالا، کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سُنے اور لگائے۔۔
کئی یوم کشمیر منائے ،کئی کشمیر ریلیوں میں بطور طالب علم شرکت کی، کئی 37 سال کشمیر ریلیوں میں بطور پولیس آفیسر ڈیوٹی بھی کی مگر 72 سال بعد آخر مودی نے اپنا کام کر دیا اور اب ہمارا نعرہ “کشمیر بنے گا پاکستان ” کا نعرہ ،نعرہ ہی رہ گیا۔
بطور پاکستانی قوم جب تک کوئی ہمارے سر میں ڈنڈا مار کر نہ اُٹھائے ہمیں ہوش نہیں آتا مگر ہندو بنیا کچھوے کی ماند اپنا کام کرتا رہتا ہے۔
مجھے سیاست پر بات نہیں کرنی ،پر اگر آپ ایوب خان سے شروع کر دیں تو انڈیا نے 1965 میں جنگ کی، جس میں دونوں مُلک اور افواج جنگ جیتنے کے دعوے کرتی ہیں، کتنی جانیں گئیں اور آخر میں ہوا 10 جنوری  1966کو معاہدہ تاشقند۔۔

اس معاہدے کے بعد ہم پھر سو گئے ،انڈیا نے اپنا کام کیا اور پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور ہمارے سیاستدانوں نے اقتدار کی ہوس میں مُلک پاکستان کا ایک حصہ کھو دیا۔

1971 کی جنگ ہوئی، پاکستان کو بُری طرح شکست ہوئی، تقریباً 93000 ہزار فوج نے ہتھیار ڈال دیے، مغربی پاکستان کے 5پانچ ہزار مربع میل علاقے  پر انڈیا نے قنضہ کر لیا۔۔
اس شکست میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے کردار ادا کیا ،شکست کیوں ہوئی ؟

اپنی ہی فوج کے خلاف دلوں میں نفرت پیدا کر دی گئی تھی جیسے آج کل  کی جارہی ہے۔۔

ذوالفقار بھٹو اقتدار میں آئے، اُن کے اور اندرا گاندھی کے درمیان شملہ کے مقام پر 28 جون سے 2 جولائی 1972 تک مذاکرات ہوئے، یہ وفد میں 92 ارکان تھے جس میں بھٹو کی 19 سالہ بیٹی بے نظیر بھی شامل تھیں، 2 جولائی کو معاہدہ پر دستخط ہوئے۔۔
جنگی قیدی رہا ہوئے ، واپس کن شرائط پر ہوئے۔۔ آج تک قوم کو معلوم نہ ہوا۔
بھٹو صاحب کی حکومت رہی پر کشمیر جلتا رہا
بھٹو کی حکومت ختم ہوئی جرنل ضیاالحق کا مارشل لا آگیا پر کشمیر جلتا رہا

جنرل ضیاالحق کی حکومت رہی اور ہم لوگ روس کے خلاف امریکہ کے کہنے پر جہاد کرتے رہے اور کشمیر جلتا رہا۔

جنرل ضیا کے بعد بے نظیر ،پھر نواز شریف، پھر بے نظیر ،پھر نواز شریف حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں پر کشمیر جلتا رہا۔۔
کارگل ، سیاچین کے واقعات بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنا سکے اور کشمیر جلتا رہا۔

جرنل مشرف نے اپنا دور گزارا، کشمیر اُسی طرح جلتا رہا۔۔

آصف زرداری صدر پاکستان اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے کشمیر ڈرامہ چلتا رہا اور کشمیر جلتا رہا۔۔
نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے ،مودی جاتی امرا میں ان کے گھر مہمان بنے۔۔

جندال مری میں نواز شریف کے کاروباری دوست بن کر آئے
بُہت اچھے تعلقات مودی حکومت سے رہے، مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا اور کشمیر جلتا رہا۔۔

مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے دس سال چیئرمین رہے، منسٹر کے عہدے کی مراعات لیتے رہے، کُچھ بھی نہ کیا اور کشمیر جلتا رہا۔۔

موجودہ PTI کی حکومت آ گئی، پیلٹ گنز استعمال ہوتی رہیں عز تیں لُٹتی رہیں بیانات کی بھر مار رہی کشمیر جلتا رہا۔۔

پھر اچانک مودی نے اپنا کام کیا ،سیکشن 370کو ختم کردیا تو حکومت کو ہوش آیا ،اپوزیشن جاگ اُٹھی۔۔

مریم نواز نے کشمیر فتح کرنے جانا تھا، اُن کو نیب نے گرفتار کر لیا اور کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔
فریال تالپور کی گرفتاری نے بھی بقول اپوزیشن کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا۔
ہمارے دوست مُسلمان ممالک سعودی عرب UAE باوجود  مُسلمان  ہونے کے ہندوستان کی حمایت کرتے ہیں اُن کے اپنے مفادات ہیں۔۔

امریکہ ہمیں ہمیشہ کی طرح بے وقوف بنا رہا ہے جیسے 1971 کی جنگ میں ہم امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے مگر اُس نے آنا تھا نہ آیا ،اور اب بھی صدر ٹرمپ لا رے لگا رہا ہے اور مودی اپنا کام کیے جا رہا ہے اور کشمیر جل رہا ہے۔۔۔

ہر مُلک کی اپنی اپنی ترجحات اور مفادات ہیں ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے ۔

ان سارے حالات میں مجھے امیر اور غریب رشتہ دار یاد آرہے ہیں جب امیر صاحب حیثیت رشتہ دار کسی کے گھر مہمان جاتا ہے تو گھر کی صفائی کرائی جاتی ہے، اچھے کھانے بنتے ہیں اور غریب رشتہ دار مہمان آئے تو نہ اچھے کھانے نہ مہمانداری اور غریب رشتہ دار کی خوشامد بھی صرف اُس وقت ہوتی ہے جب اُس سے کوئی طمع ہوتا ہے۔ اس دفعہ ہمارے وزیراعظم کا دورہ امریکہ بھی مجھے کُچھ ایسا ہی لگا ہم بھی خوش، انڈیا بھی خوش۔

مجھے نہیں پتا اب آگے کیا ہونا ہے کشمیر آزاد ہو گا کہ نہیں ؟ پاکستان کا حصہ بنے گا کہ نہیں ۔۔ پر سب کی سیاست خوب چمک رہی ہے حکومت بھی خوش ہے کہ اپوزیشن سے کُچھ عرصہ کے لئے جان چھوٹ گئی ہے۔
اپوزیشن مریم نواز، فریال تالپور اور دوسری گرفتاریوں کو کشمیر کی آزادی کی راہ میں سنگین رکاوٹ قرار دے رہی ہیں اور عوام کو بےوقوف بنا رہی ہے۔

پارلیمنٹ کا مُشترکہ اجلاس بھی ہوا ،بحث کشمیر پہ کیا ہونی تھی ایک دوسرے پر گندگی اُچھالی گئی، پورا سیشن اسی  طرح ختم ہو گیا اور کشمیر جلتا رہا۔۔

آخر یہ ڈرامہ کب تک چلے گا ۔۔۔جنگ ہونی نہیں، ہوئی تو یہ ایک بھیانک ایٹمی جنگ ہو گی ،جس کی پوری دنیا خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان متحمل نہیں ہو سکتے۔۔

سب اسی طرح چلنا ہے اور کشمیر نے کب تک جلنا ہے ۔۔ کسی کو معلوم نہیں صرف الّٰلہ پاک جانتا ہے۔۔

کشمیر کمیٹیاں بنیں گی سلامتی کونسل کے اجلاس ہوں گے ریلیاں نکلیں گی،یہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جس میں ہمیں انگریزوں نے اور اُس وقت کے سیاستدانوں نے پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا مُشکل ہی  نہیں شاید ناممکن  بھی ہے۔

جنگیں اُسوقت لڑی اور جیتی جاتی ہیں جب قوموں کے حکمران نہیں لیڈر ہوتے ہیں وہ اپنا یا اپنے بچوں کا نہیں قوم کے بچوں کا سوچتے ہیں، اُن کی لندن، دبئی اور پوری دنیا میں جائیدادیں نہیں ہوتیں، وہ مُلکی اداروں کو  اپنا ذاتی ملازم بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔

یہ جنگ کشمیریوں کی جنگ ہے اور اُنہوں نے لڑنی ہے ،تکلیف میں صرف وہ ہیں،جن کے پیارے شہید ہو  رہے ہیں، عزتیں  اُن کی لُٹ رہی ہیں ،زخمی وہ ہو رہے ہیں جہاں آگ جلتی ہے تکلیف بھی وہیں ہوتی ہے، ہم سے تو صرف یہ نہ ہو سکا کہ ہندوستانی اشیا کا بائکاٹ کر دیں، اُن کے ڈرامے نہ دیکھیں فلمیں نہ دیکھیں۔۔ کیا ہم واقعی قوم ہیں؟

ریاض شاہد مرحوم نے آج سے پچاس سال پہلے اپنی فلم “یہ امن” میں یہ گانا لکھا تھا جو مجھے یاد آرہا ہے۔۔

ظُلم رہے اور امن بھی ہو کیا ممکن ہے تُم ہی کہو
ہنستی گاتی روشن واد ی تاریکی میں ڈوب گئی
بیتے دن کی یاد پہ سے دل  میں روتی ہوں تو بھی رو
ہر دھڑکن پر خوف کے پہرے ہر آنسو پہ پابندی
یہ جیون بھی کیا جیون ہے آگ لگے اس جیون کو
اپنے ہونٹ دیے ہیں تُم نے میری زُباں کو مت روکو
تُم کو اگر توفیق نہیں تو مُجھ کو ہی سچ کہنے دو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الّٰلہ پاک کشمیری بھائیوں کی حفاظت فرمائے آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply