میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(16)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط سولہ
جب قید میں علم کے پر کھلے ۔ شاہین اکیڈمی کیمپ اسکول

ہمارے کیمپ میں چھوٹی بڑی عمر کے کئی بچے تھے۔ جن کی عمریں کچھ ماہ سے14 سال تک کی تھیں۔ کچھ نسبتاً بڑی عمر کے نوجوان تھے۔ جبکہ مڈل ایج لوگ خاصے تھے ۔ بچے اسکول نہ جانے کی وجہ سے نظم و ضبط سے عاری اِدھر اُدھر دھما چوکڑی مچاتے پھرتے تھے۔ کبھی چھپن چھپائی  تو کبھی پہل دوج ، جو زمین پہ لکیریں بنا کر ایک پتھر کی مدد سے کھیلا جاتا تھا۔ اس قید نے بچوں  کی فطری آزادی کے جذبے کا گلا نہیں گھونٹا تھا۔ لیکن چونکہ یہ پتہ نہ تھا کہ کب رہائی  کا پروانہ ملے گا، خاص کر ماؤں کو کہ جن کے ساتھ بچے تمام وقت ہی    لگے رہتے تھے،اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر شروع ہوئی ۔آخر کچھ تو ہو کہ ان بچوں کے کان علم سے آشنا ہوتے رہیں۔ اور دن بھر کی ضبط اور قاعدے سے عاری سرگرمیوں پہ قدغن لگے۔ روایتی اسکول نہ سہی تو کچھ گھنٹے اس جیسا ماحول تو ہو۔ قرآنی قاعدہ اور اسلامی تاریخ کے قصّے تو ویسے ہی کیمپ میں بچوں کو ماؤں کی زبانی سناۓ جاتے لیکن درسی سطح کی تعلیم کا باقاعدہ سلسلہ کچھ عرصے بعد شروع ہُوا۔اس طرح قید میں علم کے پَر کھولنے کا کریڈٹ خواتین کو جاتا ہے۔

باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے میں ڈاکٹر پاشا اور ڈاکٹر صدیق نے رہبر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کلینک سے آنے کے بعد وہ پانچ بجے کے بعد تعلیم کا سلسلہ شروع کریں گے۔اس طرح عورتوں کے بیرک کے ایک کمرے میں سارے بچے ایک جانب کو جمع ہوتے جبکہ ان کی مائیں دوسری جانب بیٹھ جاتیں ۔ چونکہ چھوٹی بڑی عمر کے بچے تھے لہٰذا یہ ایک مخلوط کلاس تھی ۔ میری دو بہنیں بھی شامل تھیں جبکہ چھوٹا بھائی  جو ابھی صرف ڈھائی  سال کا تھا، کلاس کا حصّہ نہ تھا۔

ابتداء میں بغیر کاپی ، پینسل اور بلیک بورڈ کے زبانی ہی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع ہُوا۔ بچے زمین پہ بیٹھتے اور ٹیچر کھڑے ہوکر پڑھاتے ،زبانی پہاڑے سُنے جاتے اور یاد کرواۓ جاتے۔ بعد میں کاپی پینسل کا انتظام ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر پاشا اور ڈاکٹر صدیقی ایک ایک دن باری سے کلاس سنبھالتے۔ چھوٹے بچے گنتی اور انگریزی پڑھتے ۔ عمر کے فرق کی وجہ سے دس سالہ بچہ فرفر سب سنا دیتا اور دوسرے کم عمر بچے اس سے سیکھتے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک بھی ملتا اور نہ کرنے پہ کونے میں کھڑے ہونے کی سزا بھی ملتی۔ سزا پانے والے بچے دس پندرہ منٹ کی سزا کی ہزیمت سے بچنے کے لیے دوسرے دن یاد کر کے آتے۔عموماً کلاس میں پڑھائی  میں اچھے بچوں سے زیادہ کچھ سنا نہیں جاتا اور سارا زور کمزور اور نہ یاد کرنے والے بچوں کی پڑھائی  پہ دیا جاتا۔ جس پہ ماؤں نے کہا کہ ان محنت سے سبق یاد کرنے والوں سے بھی سنا جاۓ تاکہ کلاس میں مقابلے کی فضا پیدا ہو۔ جس پر عمل کیا گیا۔تعلیمی درسگاہ کے دو فوائد تھے۔ ایک تو بچوں کو مصروف رکھنا اور دوسرے ڈسپلن اور نظم و ضبط کی فضا قائم رکھنا۔

میری عمر اور بڑے بچوں کی کلاسز مردانہ بیرکس میں ہوتی تھیں ۔ ان بڑے بچوں میں خود مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ میری عمر کے دو سگے بھائی  تھے ۔ سراج انور اور مسعود اختر۔ جو میر پور،ڈھاکہ میں میرے کلاس فیلو بھی تھے۔ ان کے  والد ادب کی نامور ہستی رفیع احمد فدائی  تھے ۔ پہلے تو میں نے قرآن پاک دہرایا۔ اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی پڑھے۔ زور حساب اور انگریزی کی گرامر پہ تھا۔ چونکہ اُردو تو مشرقی پاکستان میں بھی کم ہی پڑھائی  جاتی تھی۔ لہٰذا یہاں بھی انگریزی گرامر کی کتاب Wren and Martin اور حساب کی چیٹرجی کی کتاب اور الجبرا کی کے پی باسو کی لکھی کتاب سے استعفادہ کیا گیا۔

پھر سوچا یہ گیا کہ اس عرصے میں ہونے والی پڑھائی کی سند بھی ہو تاکہ پاکستان جا کے داخلے میں آسانی ہو۔ اس مقصد کے لیے سائیکلو اسٹائل پیپر نکالا گیا اور کچے آلو کی مدد سے اس پر مُہر بنا کر چسپاں کی گئی۔ اسکول کا نام شاہین اکیڈمی رکھا گیا تھا۔ اور مُہر پہ پی او ڈبلیو اکیڈمی کیمپ نمبر ۱۲۸درج تھا۔ سند پہ کیپٹن پاشا کی دستخط تھے ۔اِسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پہ جب ہم کراچی پاکستان آۓ تو بورڈ آف ایجوکیشن گئے جہاں یہ سرٹیفکیٹ دکھا کر نویں جماعت میں داخلہ ملا۔

اس کیمپ میں دو بیس بائیس سال کے نوجوان بھی تھے جو ماں باپ کے بغیر تھے کیونکہ یہ لڑکے ڈھاکہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے طلبا کے لیے کوٹا مختص تھا۔ جبکہ مشرقی پاکستانیوں کے لیے ایسا کوئی  کوٹا نہیں تھا۔ جس پر بنگالی معترض بھی تھے۔

ان لڑکوں میں سے ایک کا نام کاشف تھا۔ جو بہت اچھا ماؤتھ آرگن بجاتا تھا۔ اس سے ہماری بھی دوستی ہو گئی تھی۔

mouth organ

کاشف کو کسی لڑکی سے یوں تو ملنے کا موقع  نہ ملا لیکن ان کی نظریں کیمپ کی ہی کسی لڑکی سے ضرور مل گئیں۔ جس کے والدین بھی کیمپ میں تھے ۔ وہ لڑکی کاشف کو بہت بھا بھی گئی۔ آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوۓ اور پسندیدگی کی بنیاد پہ بات والدین تک پہنچائی   گئی۔ اس طرح شملہ معاہدہ سے پہلے اس عشق کا معاہدہ طے پایا اور ان دونوں کی منگنی انجام پائی  ۔ اس دن کیمپ میں کچھ میٹھا پکایا اور کھایا گیا۔ یہ منگنی صحرا میں بادِ نسیم چلنے کی مانند تھی۔بعد میں اس معاشقے کا کیا بنا کچھ پتہ نہیں۔ اس وقت ہم سب قیدی امن اور واپسی کے معاہدہ کے منتظر تھے تاکہ ہماری زندگیوں میں بھی سکون پیدا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply