کہیں میرے سامنے شرمندہ نہ ہو جانا ۔۔ محسن علی خاں

کلاس شروع ہوۓ ابھی دس منٹ گزرے تھے۔ استاد محترم نے حاضری رجسٹر پر حاضر اور غیر حاضر طُلبا کی جانچ پڑتال مکمل کی۔کلاس میں لگے نوے نکور وائٹ بورڈ پر اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ استاد محترم پوری توجہ کے ساتھ جب بورڈ پر لکھ رہے تھے تو حسب معمول میں رِمکے رِمکے کلاس سے کِھسَک گیا۔

باہر نکل کر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے باغ کی نُکڑ تک پہنچ گیا۔ دائیں طرف پانی کی ٹینکی تھی جو عرصہ دراز سے بند تھی۔ بائیں طرف یونیورسٹی سے باہر جانے والا راستہ اور ساتھ ہی بلیک اینڈ وائٹ دور میں بھی رنگین انگلش ڈیپارٹمنٹ تھا۔

یہی وہ پرائم جگہ تھی جہاں سے انگلش لٹریچر والی کچھ ماڈرن لڑکیاں، اور باقی تمام شعبہ جات کی خواتین بھی آتے جاتے نظر آتی رہتی تھیں۔

یہاں وہ دوست جو ابھی تک کلاس میں گئے ہی نہیں یا آرٹس مضمون والے دوست جو ازلوں سے کبھی کسی کلاس میں نہیں گئے ہوں گے لیکن یونیورسٹی باقاعدگی سے آتے تھے، ان کے ساتھ گپ شپ، مارکیٹ میں آئی نئی جُگت، حالات حاضرہ و دیگر اُمور پر غیر سیر حاصل گفتگو رہتی تھی۔ جس کا ربط صرف اس وقت ٹوٹتا تھا جب باغ کے باہر سے ہی تتلیاں گزرتی تھیں تو باغ کے سب پھول رُکی ہوئی ہوا کے باوجود جھومنے لگ جاتے تھے۔

اُس دن بھی میں اپنی مستی میں مگن تھا اچانک میری نظر سامنے سے آتے اپنے والد محترم پر پڑی۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی بات کے مصداق، میں تو وہیں سومنات کا بُت بن گیا۔ دل کی دھڑکن پر خزاں آگئی۔ اسی اثنا میں والد محترم بالکل پاس آگئے۔ میں نے آگے بڑھ کے انہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تب مجھے یقین ہوا، یہ نظر کا دھوکا نہیں پیارے یہ حقیقت ہے۔
میں نے اُن سے پوچھا آپ کدھر سے آرہے؟
اُنہوں نے بتایا کہ اپنے کولیگ کے بیٹوں کا ایڈمیشن کروانے آۓ ہیں۔
پھر انہوں نے پوچھا کہ آپ کا ڈیپارٹمنٹ کون سا ہے؟
مرتا کیا نہ کرتا، میں بولے بغیر ، پیچھے تکبیر بلاک کی طرف اشارہ کیا۔
کیا آپ کی کلاس ختم ہو گئی؟
میں نے کہا: جی وہ، ہاں، وہ، ابھی، وہ، نہیں، ہاں، وہ، سر، ہاں، بس شروع ہونے لگی، بس ابھی۔

والد صاحب نے کہا، چلو پھر آپ کے“ سر“سے ملتے ہیں۔
میرے قدم قارون کے خزانے کی طرح دھنس گے۔ مجھے لگا میرے پاؤں تلے اب یونیورسٹی کی زمین نہیں ، براعظم افریقہ کا تپتا صحرا ہے۔
دو قدم انہوں نے بڑھاۓ، آدھا قدم میں نے بڑھایا۔ میں تو تقریباً رینگتا ہوا ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں تک پہنچا۔ اندرونی دروازے میں داخل ہونے سے پہلے اچانک والد صاحب رُک گئے۔
پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے۔

“ آپ کے استاد محترم سے سے مِل تو لوں، لیکن اگر انہوں نے آپ کی کوئی شکایت لگا دی تو آپ نے میرے سامنے شرمندہ ہو جانا ہے، میں نہیں چاہتا کہ آپ پھر میرے سامنے آنے سے چھُپتے پھرو۔”

میں نے پوری ہمت جمع کر کے بھی بے بسی میں کہا،
نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں، آجائیں آپ مل سکتے ہیں۔

والد محترم نے میری طرف دیکھا، میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پھر اپنی جیب سے پرس نکالا، اس میں سے ایک سو روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیا اور کہتے یہ لو میں آج پہلی دفعہ آیا ہوں، کہنا نہ کہ خالی ہاتھ ہی واپس چلے گئے۔

میں ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ پکڑے اُس کے کونے کو مڑوڑتے ہوۓ والد محترم کو واپس جاتے دیکھتا رہا۔ اور رفتہ رفتہ زندگی کی رونق میں واپس آگیا۔

یہ واقعہ 2004ء کا ہے اور مقام تکبیر بلاک، جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد تھا۔ یہ بات آج تک میرے دل پر نقش ہے۔ میں اکثر اس بات کو یاد کرتا ہوں۔ باپ تو آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیتا۔ اپنے حصار میں رکھتا ہے۔

آج بھی فادر ڈے پر میں اسی واقعہ کو یاد کر کے مسکرا رہا ہوں، اللّٰہ رب العزت میرے والد محترم کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائیں، اُن کا سایہ قائم و دائم رکھیں۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اُن تمام دوستوں کے لیے دُعاگو ہوں جن کے والد محترم اب اس دنیا سے پردہ کر چُکے ہیں۔ اللّٰہ رب العزت اُن کو اب حوض کوثر پر اپنے والد محترم سے ملاۓ، ایسے کہ ایک طرف ساقی کوثر صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور دوسری طرف آپ کے والد محترم ہوں۔ (آمین)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply