جاحظ کا نام سائنسدانوں کے بہت کم تذکروں میں ملتا ہے۔ بعض کتابوں میں اس کا نام ایک عالم دین اسلام دانا اور ایسے ادیب کی حیثیت سے درج ہے، جسکو عربی نثر لکھنے میں کمال حاصل تھا؟ اس لئے یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جاحظ کا سائنسدانوں میں شمار کہاں تک درست ہے کیونکہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا فکری رجحان سائنس سے زیادہ ادب کی طرف ہے۔ اس کی اکثر تصانیف یہاں تک کہ کتاب الحیوان تک پر بعض دفعہ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تفریح طبع کے لئے لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ علم الحیوانات کے میدان میں اس کی کو شش کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
ابو عثمان عمرو بن بحر الفقیمی 776ء میں عراق کے شہر بصرہ میں ایک حبشی خاندان میں پیدا ہوا۔ پیدائشی طور پر اس کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکلے ہوئے تھے اس لئے لوگوں نے اس کو جاحظ کہنا شروع کر دیا۔ اس کی ابتدائی تربیت گاہ بصرہ ٹھہری ، جس نے اس پر ایسا رنگ جمایا کہ ایک عمر گزارنے کے بعد بھی وہ اس کے سحر سے آزاد نہ ہو سکا۔ جاحظ ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوا تھا جہاں نہ روپے پیسے کی ریل پیل تھی اور نہ علم اور فصاحت و بلاغت ہی کے دریا بہتے تھے۔ لیکن اللہ تعالی نے خزانے کی کنجی اس کے ہاتھ میں دے کر دنیا میں بھیجا تھا۔ وہ بے پناہ ذہین تھا اور اس کے تجس کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ علم و حکمت کو ہم درسگاہوں کی چار دیواری یا کتابوں کے اوراق میں قید نہیں کر سکتے۔ جاحظ کے لیے کل دنیا اور زندگی درسگاہ تھی۔ اس کو نت نئے لوگوں سے ملنے اور باتیں کرنے کا چسکا تھا۔ کبھی وہ ملاحوں سے ان کے پیشے اور زندگی کے بارے میں سوال جواب کر تا اور کبھی خانہ بدوشوں سے ان کے نظریات اور طرز زندگی کے بارے میں گفتگو کرتا نظر آتا۔ جب یہ ممکن نہ ہو تا تو مسجد میں جابیٹھتا جہاں لوگ جمع ہو کر مختلف مسائل پر اظہار خیال اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔ پہلے تو کسی نے اس کی طرف دھیان نہیں دیا۔ لیکن رفتہ رفتہ لوگوں نے غور سے باتیں سننے والے اس لڑکے کی موجودگی کو سنجیدگی سے محسوس کرنا شروع کر دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں، پیشوں ، طبقات اور نظریات کے متعلق اس کی رائے بڑی صائب ہے۔ کچھ ہی دنوں میں وہ لسانی تحقیقاتی اور اسی طرح کے دوسرے علمی اور ادبی حلقوں میں شرکت کرنے لگا۔ یہ سب تو اس کی عملی تعلیم کا قصہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کو مطالعہ کا جنون تھا۔ جو کتاب ہاتھ لگتی اسے پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا تھا۔ یونانی تعلیمات اس کے لیے اجنبی نہیں تھیں اور وہ ارسطو سے متاثر تھا۔ خوش بختی سے اس کو الا صبعی، ابو عبیدہ اور ابو زید جیسے باکمال اساتذہ سے فیض اٹھانے کا موقع ملا۔
بعد میں کسی وقت وہ بصرے سے بغداد چلا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کا بیشتر وقت بغداد اور سامرہ میں گزرا۔ بغداد اس وقت اپنے عروج پر تھا۔ وہاں کی علمی فضا کا جاحظ کی شخصیت کی تراش خراش میں بڑا حصہ رہا۔ اگر اس کی فکری تاریخ میں بصرے کی چھاپ انمٹ تھی تو بغداد کا نقش بھی کچھ کم گہرا نہیں تھا۔ جو بیچ بصرے میں بویا گیا تھا اس کی آبیاری بغداد میں ہوئی۔ فکری اعتبار سے جاحظ ) کا تعلق معتزلہ سے تھا۔ اس کے اس ملک کو بغداد میں مزید تقویت ملی۔ وہ عقلیت پرست ہے اور ہر بات کو تسلیم کرنے سے پہلے عقلی دلائل طلب کرتا ہے۔ اس کو روایت پرستی سے نفرت ہے اور کسی کے قول کو بغیر تفتیش و تحقیق کے نہیں مانتا۔ بلکہ ان لوگوں پر کڑی تنقید کرتا ہے جو آنکھ بند کر کے ہر ایک بات کا یقین کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نظریات و عقائد اکثر ہمعصروں کے نظریات و عقائد سے بر سر پیکار نظر آتے ہیں۔
عربی کتب میں جاحظ کی تقریباً دو سو تصانیف کا تذکرہ ملتا ہے، جن میں سے بیشتر دستبرد ہو گئیں۔ اب مشکل میں دستیاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی تصانیف بڑے لوگوں کے ناموں سے منسوب کر کے ان سے معقول رقمیں وصول کیا کرتا تھا۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا اپنے زور قلم سے کمایا کیونکہ اس کی کسی مستقل ملازمت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر چہ اس کو گا ہے گاہے دربار سے وظیفے ملتے رہتے تھے اور وہ ایک طرح کا غیر رسمی مشیر تھا۔ اس کے علاوہ خلفاء کے ساتھ نہیں لیکن امراء اور سر بر آوردہ شخصیتوں کے ساتھ اس کے گہرے مراسم تھے۔ اس کی تصانیف ہر قسم کی اور مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔ بعض بہت طویل ہیں کچھ مختصر اور کچھ کی ضخامت اوسط درجے کی ہے۔ اس کے پسندیدہ موضوعات ادب الہیات مذہب اور سائنس ہیں۔ نظریات اور تجربات کی حد تک اس کو علم کیمیا میں بھی دخل ہے لیکن سونا بنانے میں وہ کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کرتا۔ اس کی تمام تصانیف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ تو دوسرے ادبیوں اور مصنفوں کی تحریروں کے انتخاب اور ان پر تبصروں پر مبنی ہے دوسرا طبعزاد تصانیف اور مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ تصانیف اپنے عنوانات کے تنوع کے اعتبار سے نہایت دلچسپ ہیں: کتاب الحيوان کتاب البیان والطيبين کتاب العثمانیہ، المعاد المعاش السر و حفظ اللسان، کتاب الرد على النصاری رسالہ فی مناقب اترک اور کتاب الربيع والقدویر –
ان تصانیف میں سے سب سے زیادہ اہم کتاب الحیوان ہے۔ ہمارے علم میں یہ اس موضوع پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ یہ ضخیم کتاب سات حصوں پر مشتمل اور نا مکمل ہے۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اگر چہ ان میں سے ایک بھی مستند نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس کا انگریزی ہسپانوی اور دوسری یورپی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کتاب کی ضخامت اور موضوع دیکھ کر قاری کو خیال ہوتا ہے کہ یہ علم الحیوان کے بارے میں کوئی جامع تصنیف ہو گی لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ جاحظ نے صرف ان جانوروں کا تذکرہ کیا ہے جن میں اس کو خود دلچسپی ہے یا جو اس کے مشاہدہ میں یہ آسانی آتے ہیں۔ باقی تمام جانوروں کو اس نے یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ مثلاً بڑے ممالیہ جانوروں، کچھ پرندوں اور حشرات یعنی مکھیوں ، مچھروں ، بچھوؤں اور جوؤں کا ذکر ہے لیکن مچھلیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ اس کے پاس مچھلیوں کے بارے میں مستند مواد نہیں تھا۔ وہ ارسطو کے نظریہ حیوانات سے متاثر نظر آتا ہے، لیکن اس پر مکمل انحصار نہیں کرتا۔ اس کتاب میں بھی ادبی اور ثقافتی رنگ نمایاں ہے۔ اس نے جانوروں کے بارے میں تمام قصے کہانیاں لینے اور توہمات بھی بیان کی ہیں جو عربوں میں مشہور ہیں۔
ان سب باتوں کے باوجود عبادت کے مطالعے کی گہرائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس نے جن حیوانات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں نہایت دلچسپ اور قابل قدر معلومات مہیا کی ہیں۔ اس نے ایک ایک جانور کی عادات واطوار کا مشاہدہ کر کے تفصیل بیان کی اور بتایا ہے کہ کون سے جانور دوڑتے ہیں، کون سے رینگتے ہیں کون سے تیرتے ہیں اور کون سے اڑتے ہیں۔ اس نے ممالیوں کی جگالی کے عمل کی بھی وضاحت کی ہے۔ وہ جانوروں کو ضرر رساں اور بے ضرر کے خانوں میں تقسیم کرنے کے خلاف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ جانور جن کو انسان نقصان دہ سمجھتا ہے نقصان دہ ہی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ان جانوروں سے کسی اور مخلوق کو کسی اور طرح فائدہ پہنچتا ہو۔ اس کا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی چیز بغیر کسی وجہ کے نہیں بنائی۔ ہر مخلوق کا کاروبار دنیا میں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے اس لئے اللہ تعالی کی کسی مخلوق کو نقصان دہ قرار دینا غلط ہے۔ اس کے بجائے وہ جانوروں کو ان کی خوراک کی بنیاد پر یعنی گوشت خور اور سبزی خور کے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ پرندوں کو اس نے شکاری اور اپنا چاؤ نہ کر سکنے والے پرندوں میں بانٹا ہے۔ اس کو جانوروں کی اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت میں بہت دلچسپی ہے۔ اس نے ایک اور نظریے پر بھی بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں اللہ تعالی کے نظام میں بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے کی گنجائش موجود ہے اور نہ برف میں سے مینڈک برآمد نہ ہوتے۔ اس نے جانوروں کی جنسی زندگی اور جنسی بے قاعدگیوں میں بہت دلچسپی لی ہے۔ اپنے ان تمام موضوعات کی وضاحت کے لیے اکثر وہ تصویروں کا سہارا لیتا ہے۔ سوائے ایک تصویر کے باقی تمام تصویر میں ایک رنگ کی ہیں۔ یہ تصاویر جانوروں کی زندگی کے مختلف مراحل کے بارے میں ہیں۔ رنگین تصویر میں ایک شتر مرغ کو انڈوں پر بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ جاحظ کا خیال ہے کہ جانور جو آوازیں نکالتے ہیں وہ بے معنی شور نہیں بدعہ با قاعدہ بولیاں ہیں جن کے یقینا کوئی نہ کوئی معنے ہوتے ہیں۔ اس کے خیال میں انسان میں ہر جانور کی کوئی نہ کوئی خصوصیت موجود ہے۔ اس لئے انسان کو ایک چھوٹی سی کائنات کہا جا سکتا ہے۔
بیسویں صدی عیسوی نے جہاں اور بہت سے کام کئے وہاں ماضی کے دفینوں کو منظر عام – پر لانے کا کارنامہ بھی سر انجام دیا ہے۔ علم کے متلاشی پرانے مخطوطات کی کھوج میں رہتے ہیں۔ جاحظ کے بہت سے قیمتی نسخے دریافت ہو کر شائع ہو چکے ہیں۔ امید ہے کہ ایک نہ ایک دن کتاب الحیوان کا بھی کوئی مستند نسخہ ضرور شائع ہو گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں