جو “ایکس” ہیں وہ”ٹنشن” نہ لیں۔۔۔۔علی اختر

پرانے اور نئے دور میں بہت سی  قدریں بدل گئی ہیں ۔ آپ محبت کو ہی لے لیں ۔ پرانے زمانے میں جب ٹھاکر رویندر پرتاب سنگھ کا اکلوتا بیٹا سوریندر پرتاب سنگھ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریبن کا چشمہ، ارمانی کا سوٹ پہنے قیمتی گاڑی چلاتا گاؤں لوٹتا تھا تو پہلی ہی نظر میں کلو کمہار کی بیٹی ساوتری دیوی کو دل دے بیٹھتا تھا جو ڈیڑھ من گوہر کے اُپلے تھاپ کر گھاگرے سے ہاتھ پونچھتی ٹوٹے پھوٹے گھر کے دروازے سے نکل کر اچانک اسکی کار کے سامنے آجاتی تھی ۔

اسکے بعد گاؤں کے مضافاتی پہاڑی جنگل میں ، میلے میں ، ہولی کے موقع پر اور خاص کر بارش میں طوفانی ڈانس والے تین چار گانوں کے بعد جب گاؤں کے نا بینا افراد بھی انہیں پیار کرتے دیکھ لیا کرتے تھے تو سب سے آخر میں ٹھاکر صاحب کو بھی پتا چل ہی جایا کرتا تھااور وہ دونالی بندوق تھامے میدان میں آجاتے تھے کہ  ان کے خون نے ایک کمہار کی غریب لڑکی کیسے پسند کی ۔ چلیں یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن دوسری جانب کلو کمہار بھی رشتہ مانگنے کے جواب میں کہتا تھا کہ “بابو جی ہم کچے گھڑے بیچتے ہیں بیٹیاں نہیں ” ۔ اور ساوتری کی شادی اپنے نکمے ، نکھٹو ، جواری ، نشئ ، نسلی کمینے بھتیجے سے بخوشی کر دیا کرتا تھا ۔ نتیجتاً دونوں پریمی اگلے جنم میں ملنے کے آ سرے میں پہاڑ سے کود جایا کرتے تھے اور فلم ختم ہو جاتی تھی ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  محبت اچانک ہوتی   ، بے پناہ ہوتی،ایک ہی بار ہوتی، سچی اور ساتھ ہی کلی طور پر اندھی ہوا کرتی تھی ۔ پھر زمانہ بدل گیا ۔ محبت پر بھی گلوبل وارمنگ سے پگھل کر مختصر المیعاد یعنی شارٹ ایکسپائری ہو گئی  ۔ بوتل کھلنے کے دو ہفتے میں ختم کرنے کی چٹ کے ساتھ مارکیٹ ہونا شروع ہو گئی  ۔

محبت میں درج بالا بدلتے رجحانات کی بدولت ایک نیا لفظ کانوں نے سننا اور نگاہوں نے جابجا بکھری تحاریر میں پڑھنا شروع کیا اور یہ لفظ تھا “ایکس” ۔ یہ لفظ “ایکس” سابقہ محبوب یا محبوبہ کے لیے عام مستعمل ہوا ۔ محبت میں منزل مقصود پانے والے خوش نصیب انگلیوں پر گنے جانے لگے جبکہ “ایکس” کثیر ہوئے ۔ کچھ نے کچھ کو “ایکس” بنایا اور نتیجتاً خود بھی کسی کے “ایکس” کہلائے ۔ کچھ راضی بالرضا “ایکس” ہوئے تو کچھ جبراًایکس” کیے گئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن مسئلہ گمبھیر اس وقت ہوا جب “ظالم سماج” کے “کالے قوانین” کے ہاتھ کسی کو “ایکس” کرنے کے درپے ہوئے اور کسی “چاہنے والے” نے عجلت میں اپنے محبوب کو “ایکس” ہونے سے بچانا چاہا ۔ نتیجہ وہی نکلا جو عموماً عجلت و جلدبازی میں کیے گئے کسی بھی کام کا ہو سکتا تھا ۔ کبھی زین الٹی کسی گئی  تو کبھی سوار الٹا سوار ہوا ۔ کبھی پیر رکاب سے نکلا تو کبھی جوتی پیر سے ۔ پھر بے درد زمانے نے بھی اپنا پرانا کردار ادا کیا ۔ مرے ہوئے کو اور مارا گیا ۔ بیکسی و لاچارگی پر قہقہے لگائے گئے ۔ دیوانگی و وارفتگی کو نا اہلی سے تعبیر کیا گیا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ  یہ قوم کچھ  ظرف پیدا کرتی ۔ دل میں کچھ وسعتیں ہوتیں ۔ احساس ہوتا ۔ کاش ٹھاکر رویندر پرتاب و کلو کمہار جیسے روایتی باپوں کا سا ظالمانہ رویہ تبدیل ہوتا کاش اے کاش ۔ ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply