میرا کیابنے گا؟/اقتدار جاوید

میرا دوست ع میری طرح اچھا خاصا گاؤدی ہے۔اسی وجہ سے میری اس سے گاڑھی چھنتی ہے۔ ع اخبار کا رسیا ہے چینلز پر دسکشنز بھی شوق سے دیکھتا ہے اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پروگرام دیکھنے کے دوران پہلے اس کی ہوائیاں اڑتی ہیں پھر اس کی بھوک اڑ جاتی ہے۔میں اسے کہتا ہوں کہ ابھی تو یہ لوگ تمہیں آدھی خبر دیتے ہیں آدھی غائب کر جاتے ہیں اگر پورا سچ بیان کر دیں تو ہوش بھی اڑ جائے گی۔ شکر ہے وہ ملکی اخبار نہیں پڑھتا اور غیر ملکی اخبارات تک اس کی دسترس نہیں۔ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ ورلڈ بینک کے مطابق دسمبر 2021 سے اکتوبر 2022 تک طالبان حکومت نے ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ ٹیکس اکھٹا کیا جو اس سے پہلے دو سال کے اسی عرصے میں اکھٹا ہونے والے ٹیکس سے زیادہ ہے۔وہی ڈیڑھ ارب ڈالر جو آئی ایم ایف ہمیں دینے پر آمادہ نہیں ہو رہا۔
وہی ملک جس کے دس بلین ڈالر کسی نے منجمد کیے ہوئے ہیں۔جس کے بارے میں بار بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہاں کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔اور یہ بھی کہ طالبان کے پاس پڑھے لکھے لوگ موجود نہیں۔وہی طالبان جو اب ایک اعلٰی درجے کی ریلوے اپنے ملک کو دے رہے ہیں۔ازبکستان محکمہ ریلوے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ازبکستان، روس،قزاقستان ، افغانستان اور پاکستان ریلویز کے حکام نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں یکجا ہوتے ہوئے مزارِ شریف۔کابل۔ پشاور ریلوے لائن تعمیر کی جائے گی۔اور
وہی ورلڈ بینک جس کا ایک بھائی آئی ایم ایف نام کا ہے، جو پاکستان کے دس روزہ دورے کے بعد جدھر سے آیا تھا اب خیر خیریت سے واپس پہنچ چکا ہے۔میرا گاؤدی دوست ع پوچھتا ہے وہ اتنے دن یہاں کیا کرتا رہا ہے۔وہ بے بس ہو کر میری طرف دیکھتا ہے تو میں دانشوارنہ لہجے میں اسے بتاتا ہوں کہ یہی تو کہہ رہا ہوں کہ چینلز آدھی خبر دیتے ہیں آدھی غائب کر دیتے ہیں۔
یہ وفد جمعہ کی صبح یہاں سے عجیب و غریب قسم کے بیانات دیے کر روانہ ہوا۔اس نے وہی کہا تھا
جو دو دشمن ممالک ایک میز پر بیٹھنے کے بعد کہتے ہیں کہ انتہائی تعمیری گفتگو ہوئی۔ہم نے ایک دوسرے کو اور قریب آنے کا مشورہ دیا ہے۔ہم دونوں کا نقطہ نظر ایک سا ہی ہے۔ہم نے ایک دوسرے کے نقطہ نظر سمجھا ہے۔یہ ایک مفید مذاکرات کا دور تھا۔دونوں نے ملک کی معیشت کو بہترین انداز میں بھی آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔جو اصل مذاکرات ہوتے ہیں ان کو غائب کر دیا جاتا ہے اور قوم کے سامنے آنے نہیں دیا جاتا۔جو کچھ وفد اپنی شرائط پیش کرتا ہے ان کو ظاہر کرنا ملک کے مفاد میں نہیں، کہہ کر چپ سادھ لیتا ہے۔وفد اتنا ضرور کہا گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں فی کس خام قومی پیداوار کی شرح کم رہی، پائیدار ترقی کیلئے دیرینہ عدم توازن کا مسئلہ ہنگامی بنیاد پر حل کرنے ہوگا۔مگر اتنا ضرور پتہ چلا ہے کہ اس دفعہ تو بتا دیا گیا تھا کہ وفد نے پتہ نہیں کہاں کہاں انگوٹھے لگوائے ہیں کہاں کہاں دستخط کروائے ہیں۔کب اور کس جگہ ناک سے لکیریں نکلوائی ہیں تب جا کے یہ وفد یہاں تشریف لایا تھا۔
ہر روز تسلی دی جاتی تھی کہ بہت جلد قوم کو خوشخبری سنائی جائے گی۔ہم دونوں بھی قوم کی طرح اس دن کا انتظار کرتے رہے۔ وہ دن تو نہ آیا اور نہ خوشخبری ملی البتہ وفد ایک بیان جاری کر کے الوداع ہو گیا کہ جس اعلامیے کا اعلان ہوا ہے وہ آئی ایم ایف بورڈ میں زیربحث نہیں آئے گا۔
ماہرین معاشیات ڈرا رہے ہیں کہ مشکل فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ارے اللہ کے بندو آج تک ملک کے لیے آپ نے آسان فیصلہ کون سا کیا ہے۔ حکومت میں آنے سے پہلے اعلان کیا جاتا ہے اخبارات میں ضمیمے شائع کروائے جاتے ہیں کہ برسر اقتدار کر ملک و قوم کی تقدیر بدل دی جائے گی۔ مگر برسر اقتدار آ کر کہتی ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہے۔چونکہ پچھلی حکومت ملک کو تباہ و برباد کر گئی ہے اس کو نئے سرے سے قدموں پر کھڑا کرنا ہو گا۔اس سلسلے میں عوام سے تعاون کی اپیل ہے اور ساتھ پر یونٹ بجلی میں اضافہ اور پر لٹر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔مہینے کی ہر یکم اور ہر پندرہ کو موٹر سائیکل اور کار کی ٹینکیاں فل کرانے کی دوڑ لگ جاتی ہے۔اس فل ٹینکی سے ایک آدھ دن کی خوشی ملتی ہے۔جیسے مریض اپنے مرض کے ساتھ رہنے کا عادی ہو جاتا ہے ویسے ہی لوگ چودہ دن ہوشربا اضافے کے عادی ہو جاتے ہیں۔یکم کو اضافہ ہو تو پندرہ تاریخ کو اور پندرہ کو اضافہ ہو تو یکم کا خوف لاحق رہتا ہے۔
ابھی مذاکرات کے کئی دور ہونا باقی ہیں۔وفد بہت سی ایسی باتیں کہہ گیا ہے جن کو عملی جامہ پہنانے کی حکمرانوں کو عادت نہیں ہے۔اپنی مراعات چھوڑنے کو کوئی تیار نہیں۔وفد کہتا ہے کہ ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر اس وقت ملیں گے جب یقین ہو جائے گا کہ آپ اپنی عادات تبدیل کریں گے۔ اس امداد کے بدلے میں اشیائے خودونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا۔بجلی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔امپورٹ شدہ اشیا پر ٹیکس لگے گا جس کا اثر نیچے تک آئے گا۔چیزیں اور مہنگی ہوں گی زندگی اور مشکل ہو گی۔ملک کا پہیہ چلانے کے لیے وفد کی رضامندی ضروری ہی نہیں لازمی ہے ورنہ کنٹینرز جن پانیوں میں کھڑے ہیں وہیں کھڑے رہیں گے۔
میرے دوست ع کا کہنا ہے
جب سے عالمی بینک کا وفد واپس گیا ہے اس وقت سے میں گومگو کی حالت میں ہوں۔اگر بینک نے میرے ملک پاکستان کو قرضہ نہ دیا تو میرے پیارے کا ملک کا کیا بنے گا؟ اور اگر اس نے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر دے دیے اور میرے کھانے پینے کی اشیا دودھ، دہی اور آٹا کی قیمتیں بڑھیں تو میرا کیا بنے گا؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply