کتاب: ديني مدارس عصری معنويت اور جديد تقاضے۔۔محمد عمران

یہ کتاب در اصل افریقی پروفیسر ابراہیم موسی (کو ڈائرکٹر یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم امریکا) کی کتاب What is madrasa کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے کیا ہےاور بہت ہی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت محترم محمد عمار خان ناصر صاحب کی برکت سے ہوئی ہے، اس پر ترغیبی تقریظ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھی ہے اور ہمیں اس کتاب کی ترغیب محترم ڈاکٹر قبلہ  ایاز صاحب نے دی تھی۔

مختلف شہروں میں تشہیر اور پذیرائی کی  تقریبات منعقد ہوئی  اور ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے احاطے میں اس کتاب کی تقریب رونمائی کی صورت گری بھی فرمائی تھی۔

چونکہ مدارس پر زیادہ تر نقد وہ لوگ کرتے ہیں جو مدارس سے براہ راست مستفید نہیں ہوتے ، اس لیے ان کا نقد اور تبصرہ ثانوی ذرائع پر مبنی ہونے کی وجہ سے اہل علم کے ہاں وقعت نہیں پاتا  لیکن مذکورہ کتاب کے مولف افریقہ سے تحصیل علم کی  خاطر ہندوستان آتے ہیں اور تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے ہیں  اور پھر ہندوستان کی عظیم درسگاہ دیوبند اور ندوة العلماء سے تحصیل علم فرماتے ہیں اس لیے خیال ہوا کہ اس کتاب میں  مسئلہ کا حل موجودہوگا جس سے سیکھنے کو ملے گا اس وجہ سے اس کا مطالعہ کیا۔

مطالعہ کے دوران کتاب سے جو مجموعی تاثر صفحہ ذہن پر ابھر رہا تھا وہ تقریباً  وہی تھا جس کا اظہار محترم دوست سید متین احمد نے کیا تھا، انہوں نے لکھا تھا کہ کتاب قابل تنقید مندرجات کے باوجود مجموعی لحاظ سے اچھی ہے، اور مؤلف نے کسی حد تک کوشش کی ہے کہ مدارس کے اندورنی ماحول، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اور اس کے پس منظر کو سامنے لا سکے۔

کتاب مذکور پر ایک تبصرہ خورشید ندیم صاحب کا بھی آیا تھا انہوں نے کتاب کے مطالعہ سے یہ تاثر لیا تھا کہ اگر میرا بس چلے تو میں تمام مدارس کو بند کروں۔

خورشیدصاحب جو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ، شاید وہ کسی حد تک درست پہنچے ہیں  ،کیونکہ مولف کتاب نے مدرسہ کا دفاع تو کیا ہے لیکن اس کا جو داخلی نقد فرمایا ہے اس کے بعد مروجہ موجودہ مدرسہ کا تصور قابل قبول نہیں رہتا بلکہ اس سے ان خامیوں کو دور کرکے جو مدرسہ وجود میں آتا ہے وہ تقریباً  وہی تصور ہے جو پرویز مشرف صاحب نے ماڈل مدارس کا پیش کیا تھا اور یہ وہ تصور قرار پاتا ہے جو ہمارے آزاد خیال دانشور پیش کرتے  ہیں۔

بہر حال کتاب تین سو سے متجاوز صفحات پر مشتمل ہے صاحب کتاب نے اہل مغرب کے سامنے مدرسہ کا خاکہ پیش کیا ہے، ان کے  قابل تعریف پہلوؤں  کا ہم اعتراف کرتے ہیں لیکن بعض مندرجات درمیان کلام میں ایسے ہیں کہ اگر اس کی نشاندہی نہ ہو تو ایک عام پڑھنے والے شخص کی اسلامی اقدار واسلاف کی روایت پسندی کو غیر محسوس طریقے سے متاثر کرسکتے ہیں لہذا بحیثیت روایت پسند طالب علم کے جو مندرجات ہمیں کھٹکنے لگے اس میں سے چند بصورت اقتباس پیش کرنے کوشش کی ہے ، قارئین اس کے منفی ومثبت پہلو پر غور فرمائیں۔ کبھی موقع  ملا تو ان اقتباسات پر تفصیلی نقد بھی لکھنے کی کوشش کروں گا ۔

“میری مذہبی سادہ لوحی مجھ سے گویا تھی کہ ملک پہ لاکھوں بت پرست ہندو اللہ کے عذاب کو بھگتنے کے لیے پر تول رہے ہیں، (ملک کی یہ صورت حال اس کی ایک جھلک ہے) لیکن چند ہی ہفتے گزرے تھے  کہ میرے ذہن میں خدائی انصاف کے تعلق سے یہ کچوکے لگانے والا سوال کوندنے لگا کہ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہے، کہ ایک عادل خدا ہم مسلمانوں کو تو جنت کی خوش خبری سنائے اور ان ہندوؤں کو جنہم کی بد خبری دے جو بالکل ہماری ہی طرح نظر آتے ہیں” ؟ (۳۷)

مدرسے کی زندگی سے خو د کو ہم آہنگ کرلینے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ مدرسے کے تعلق سے سادہ لوحی پر مبنی خیالات تضادات سے محفوظ نہیں ہیں۔ (۳۹)

میں پہلے اس خوش خیالی میں مبتلا تھا کہ فقہ یا شریعت کے اسلامی معاشرے میں صحیح طرح نفاذ کی بنیاد پر ایک ماڈل اسلامی معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے، لیکن بعد میں مجھے اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ صرف قانون کے نفاذ کی بنیاد پر سماج میں انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا، اس پہلو کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کو شریعت کے نام سے نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس میں ” بہت کچھ” تحریفات اور تبدیلیاں شامل ہوتیں۔ (42)

ایسے مسائل میں جن پر علماکا اجماع واتفاق ہے کوئی نئی راہ اختیار کرنا اور پہلی رائے کو غیر مستند قرار دینا کبھی اس بات کا باعث بن جاتا ہے، کہ ایسے شخص کو کفر کا ارتکاب کرنے والا اور دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جائے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے خطرات نے بہر حال میرےارادوں میں تزلزل پیدا نہیں کیا کہ میں اسلام کے متوارث فکر وعمل کے ڈھانچے کو بھی اپنی فکر کا موضوع بناؤں۔ (٤٢)

مدارس کا نصاب زمانے کی ضرورتوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ (٤٣)

ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے اس بات کا صحیح شعوروادراک مدرسے کی چاردیواری سے باہر ہوا کہ کس طرح ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کی جائے؟ اب وہ قدیم متون جو میرے مطالعے میں تھے، اچانک مجھے فرسودہ اوربے کار لگنےلگے۔ (٤۵)

کیپ ٹاؤن پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں ہندوستان میں رہ کر حقیقی دنیا سے بالکل بے خبر اور دور ہوچکا ہوں۔ (٤۵)

فلم دیکھنے اورمیوزک سننے کی بات تو دور ہی رہی اس کی وجہ یہ تھی کہ میرانظریہ ان تمام چیزوں سے متعلق بد ل چکا تھا میرے نظریے کے مطابق یہ ساری چیزیں حرام وممنوع تھیں ۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں نے دیوبند کے اصولوں پر عمل کیا ہوتا تو نہ صرف جنوبی افریقہ میں میری زندگی ایک خاص دائرےمیں محدود ومقید ہوکر رہ جاتی بلکہ ذہنی اورفکری ارتقا بھی رک جاتا۔ (٤٦)

اب جب میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے جنوبی افریقہ سےدوبارہ ہندوستان آیا اوردیوبند کے احاطے میں داخل ہوا تو میں نے ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔۔۔ میرا نقطہ نظرواضح تھا کہ اس طرح کی پابندی جو لباس پوشی سے تعلق رکھتی ہے مدرسے کے نظام کی خامی ہے۔ (٤٦)

میری نظر میں یہ بات صحیح ہے کہ مدارس اسلامی فکر کے بڑے مسائل سے اعتنا نہیں کرتے نیز معاصر مسلم معاشروں کے فکری ارتقا اورتبدیلی میں بالخصوص جس کاتعلق مذہب سے ہےوہ مطلوبہ کردار ادا کرنے سے قاصرہیں۔ (۵۱)

میرا اپناخیال ہے کہ اسلامی فکر وعمل کے حوالے سے میں آج نہ صرف یہ کہ رجعت پسند طاقتوں سے نبرد آزمائی کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہوں اور ایسی طاقتوں کو پیچھے دھکیل سکتا ہوں بلکہ میں ترقی پسند طاقتوں سے خود کو مربوط بھی کرسکتا ہوں۔ (۵۲)

بسااوقات عبادات کی پابندی سے گھری ہوئی شب وروز کی زندگی بڑی عجیب اور نامانوس سی لگتی تھی۔ اس وقت میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ آئندہ چھ سال کی یہاں کی زندگی کے اطوار یہی ہوں گے، اور وہ ایسی ہی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہوگی۔ (۵۳)

شاہ اسماعیل دہلوی کی تحریریں مناظراتی جملوں سے مرصع ہوتی تھیں اور ان پر لفظی جنگ و جدال کی چھاپ قائم ہوتی تھی جو ان کے مخالفین کی سماعت پر بجلی بن کر گرتی تھی۔ (۱۲۰)

یہ اوراس طرح کے جملوں کے ذریعہ شاہ محمد اسماعیل دہلوی نے اختلافات کی جو تخم ریزی کی اگلی دو صدیوں میں اس نے سنی مسلمانوں کے ما بین نزاع وکشمکش کی ہولناک شکل اختیار کرلی۔ (۱۲۲)

مولانا قاسم نانوتوی نہایت سادہ طبیعت اورمنکسر المزاج شخص تھے۔ ان کےاندر کسی بات پر اڑجانے کی خو نہیں تھی جبکہ مولانا گنگوہی کے مزاج میں اس کے برعکس تصلب پایا جاتا ہے، اس کے علواہ زاہدانہ سختی وخشکی بھی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ (۱۳۰)

اہل دیوبند شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے سماجی اصلاح کے غیر حقیقت پسندانہ نظریے کی شدت کے ساتھ تعریف وستائش اور تائید کرتے ہیں۔ (۱۳۲)

دیوبندکی راسخ العقیدگی پر مبنی اصلاح پسندانہ فکر تقریباً  سو سالوں سے نزاع وجدال اور باہمی کشمکش کا محور رہی ہے۔ (۱۳۳)

۱۹ ویں صدی کے اواخر میں دبستان دیوبند مدارس کے حلقوں کے نقیب کی حیثیت سے برصغیر کے افق پرابھر کر سامنے آیا۔ بیسویں صدی کے دورانیے میں اس نے تنگ نظری پر مبنی مسلکیت پسندانہ فکر فروغ دینے میں غیر معمولی رول ادا کیا۔ (۱۳۵)

اس وقت یہ دونوں جماعتیں جس نقطہ اختلاف کی بنیاد پر باہم بر سر پیکار ہیں، جس میں اغیار کے ساتھ معرکہ آرائی کےمقابلے میں زیادہ شدت پائی جاتی ہےوہ در اصل مدارس کے نظام تعلیم وتدریس کی ہی پیداوار ہے۔ (۱۳6)

اس حقیقت کے باوجود کہ مدارس سےنکلنے والی فوج ظفر موج میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے لیکن وہ شتر مرغ کی طرح مسائل اور چیلنجوں کے گولہ بارود سے اپنا سر بچانے والی ہے۔ وہ ان مسائل سے آنکھیں نہیں ملا سکتی وہ مغرب سیکولر سٹ تجدد پسند مسلمان اہل دانش کو نشانہ بناتی اوراسکی آڑ میں اصل مسائل سے نظریں بچالیتی ہے۔ (۱۸۱)

سنت کی ایک ظاہری شکل جو ایک فرد کے وضع قطع سے منکشف ہوتی ہے، بقدر مشت داڑھی لمبا کرتا ٹخنوں سے اوپر پاجامہ جب کہ خواتین اس سنت کی  سپرٹ کے تحت اپنے چہروں کو چھپاتی ہیں۔ مدرسہ کی راسخ العقیدگی کی روایت پر تنقید کرنے والے بجا طور کہتے ہیں کہ سنت کے تعلق سے علما کے حلقوں میں موجود تصور ضرورت سے زیادہ ہے۔ (۱۸۹)

عہد نبوی کی مسلم خواتین کے اس رول کے پیش نظر آج مدارس اور دیگر دینی ووعلمی حلقوں میں مسلم خواتین کو جس طرح سماجی سرگرمیوں سے الگ تھلگ اور اختلاط مرد وزن کے خطرے سے سماج کے حاشیے پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ عجیب تر اورنہایت حیران کن ہے۔ (۲۱۳)

برصغیر ہند میں پھیلے ہوئے تمام تر مدارس میں فقہ وفتاوٰی کی صدیوں پرانی پامال اور فرسودہ روایت جاری ہے۔ (۲۱6) اس طرح دیوبند کانصاب تو اب بھی اس کہنگی کا حامل ہے۔ (۲۱۸)

مؤلف مذکورنے جا بجا مختلف پیرایوں میں اپنی تجدد پسندانہ فکر کو اس کتاب میں یوں ملایا ہے کہ جیسے نمک پانی میں ملایا جاتا ہے جو پانی کی ظاہری ہیئت کو تبدیل تو نہیں کرتا لیکن جس کا قوت ذائقہ سالم ہو تو اس کو بخوبی ورق ورق پر اس کا ذائقہ شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دین اسلام کی روایات کا قدر داں بنائیں۔ اور مغربی چکا چوند سے محفوظ  فرمائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply