• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روس میں بغاوت-عوامل و اثرات/ ڈاکٹر راشد عباس نقوی

روس میں بغاوت-عوامل و اثرات/ ڈاکٹر راشد عباس نقوی

حالیہ مہینوں میں ویگنر ملیشیا گروپ اور روسی حکومت کے درمیان اختلافات بالآخر اس خطرناک مرحلے پر پہنچ گئے کہ اس کرائے کے گروہ نے جمعہ کی رات اچانک روسیوں سے منہ موڑ کر ماسکو کے ساتھ تصادم کا راستہ چنا ہے۔ ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے روسی وزارت دفاع پر اس گروپ کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی افواج نے روس کی سرحد عبور کرکے ملک کے مغرب میں روستوو شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ کہ ان کے آدمی اس شہر کی طرف جا رہے تھے۔ روسی اسپیشل فورسز جو اس گروپ کا راستہ روکنے کے لیے بھیجی گئی تھیں، انہوں نے اس کے خلاف سخت فائرنگ کی ہے۔ پریگوزن نے کہا: “ہم اپنے راستے پر چلتے رہیں گے اور آخر تک جائیں گے۔ ہم صرف پیشہ ور افراد سے لڑتے ہیں اور ہم بچوں کو مارنا نہیں چاہتے، لیکن ہم اپنے راستے میں ہر چیز کو تباہ کر دیں گے۔”

پریگوزن نے دعویٰ کیا کہ روستوف میں ہوائی اڈے سمیت فوجی تنصیبات ان کے کنٹرول میں ہیں۔ اس دعوے کے باوجود، وہ خبریں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس گروہ نے روستوف پر مکمل قبضہ کر لیا ہے، میڈیا اور آن لائن نیٹ ورکس میں شائع نہیں ہوئیں۔ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ روسی فوج کے بھاری ٹرک شہر کی طرف جانے والی شاہراہوں کو روک رہے ہیں، روستوو کے باہر سڑک پر نیشنل گارڈ کے ٹرکوں کے لمبے قافلے اور بکتر بند گاڑیاں سڑکوں پر گھوم رہی ہیں۔ چیف ویگنر نے ماسکو حکام کے “فوجی بغاوت” کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ یہ “انصاف کے لیے مارچ” ہے اور فوج پر زور دیا کہ وہ مزاحمت نہ کرے اور اپنے رہنماؤں کے خلاف اٹھے۔

ویگنر کی بغاوت کیخلاف روسیوں کا ردعمل
ویگنر کی بغاوت کے بعد، روسی سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر اس مخالف سکیورٹی اقدام کو روکنے کے لیے کام شروع کر دیا۔ روسی سکیورٹی فورسز ہفتے کے روز سینٹ پیٹرزبرگ میں ویگنر ملیشیا کے ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس میں بغاوت کے منصوبہ سازوں کی تلاش کا آپریشن شروع ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ تخریب کاری کو روکنے کے لیے ماسکو کے حساس اور اہم مراکز کے ارد گرد نیشنل گارڈ کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ ویگنر کا اپنی افواج کے ٹھکانوں کے خلاف روسی حملوں کا دعویٰ جبکہ روسی وزارت دفاع نے اس دعوے کے ساتھ ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’سوشل نیٹ ورکس پر پریگوزن کی جانب سے ویگنر پر روسی وزارت دفاع کے حملوں کے حوالے سے شائع ہونے والے پیغامات اور کلپس، بنیادی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے اور یہ اشتعال انگیزی ہے۔”

روس کی قومی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا کہ پریگوزن کے نام پر پھیلائے جانے والے بیانات بے بنیاد ہیں۔ روستوو صوبے کے گورنر واسیلی گولوبوف نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر اعلان کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے روستوو صوبے کے رہائشیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اس ملک کے عوام کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا: ’’جس نے بھی شعوری طور پر غداری، بلیک میلنگ اور مسلح بغاوت کا راستہ تیار کیا ہے، اسے جلد ہی سزا دی جائے گی۔‘‘ ہمارے اتحاد میں پھوٹ ڈالنے والے اقدامات دراصل ہمارے ان لوگوں اور ساتھیوں سے جنگ ہے، جو محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ یہ ہمارے ملک اور عوام پر پیچھے سے وار کر رہے ہیں اور ایسے خطرے سے وطن کی حفاظت کے لیے ہمارے اقدامات سخت ہوں گے۔

روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس نے بھی یوگینی پریگوزین کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا اور روسی قومی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے ویگنر کی فورسز سے کہا کہ وہ پریگوزن کو گرفتار کرکے فوج کے حوالے کریں۔ پریگوزن کئی مہینوں سے روسی ہائی کمان پر یوکرائنی جنگ میں ناکامی کا الزام لگاتے رہے تھے۔ انہوں نے اس ملک کے وزیر دفاع اور ملٹری کمانڈ پر کئی بار ان کی طرف سے لاپرواہی کا الزام لگایا گیا تھا۔ پریگوزن، جو کبھی چھپی ہوئی کاروباری شخصیت اور پوٹن کے اندرونی کمیٹی کا حصہ تھا، نے یوکرین اور لیبیا اور شام جیسے روسی اثر و رسوخ کے علاقوں میں جنگ میں شامل ہو کر اپنی عوامی مقبولیت اضافہ کیا ہے۔ ویگنر کی شہرت کا عروج یوکرائنی جنگ کے دوران سمجھا جاتا ہے، جہاں پریگوزن نے مسلسل روسی فوج کی پیش قدمی کو اپنی خدمات کا نتیجہ قرار دیا۔ اس خیال کے ساتھ، اب پریگوزین نے اپنے طاقتور سرپرست سے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا، البتہ اس ملیشیا گروپ کی روس کے ساتھ محاذ آرائی کی نظیر موجود ہے اور شام کے بحران کے دوران اس کے ماسکو کے ساتھ تنازعات ہوئے، جب وہ روسی محاذ پر دہشت گردوں سے لڑ رہا تھا۔

ویگنر گروپ ایک نجی ملٹری کمپنی ہے، اس کی زیادہ تر افواج روسی شہری ہیں اور اسے روسی حکومت کی حمایت حاصل ہے، لیکن مغربی ممالک اسے کرائے کا گروپ قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ حال ہی میں امریکہ نے بھی ویگنر کی ماسکو کی مدد کی وجہ سے پریگوزین پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کمپنی کی بنیاد 2014ء میں رکھی گئی تھی اور پریگوزن اپنے کیٹرنگ کے کاروبار کے ساتھ ریاستی تقریبات کی میزبانی کرنے کے لیے “پوٹن کے شیف” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ گروہ ان ممالک میں داخل ہوتا ہے، جو خانہ جنگی میں ملوث ہیں اور اس گروہ کے افراد پیسوں کے عوض مقامی حکومتوں کی مدد کرتے ہیں۔ روسی حکومت اور ویگنر کے درمیان تنازع کے آغاز کے ساتھ ہی اس معاملے پر بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے کہ اس کارروائی سے یوکرین کے جنگی علاقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کیا ویگنر روس کی داخلی سلامتی کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

اگرچہ واگنر کی افواج نے گذشتہ سولہ مہینوں میں روسی افواج کے شانہ بشانہ یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں پیش قدمی کرنے میں مدد کی اور باخموت شہر میں فتوحات حاصل کیں، لیکن اس گروپ کی زیادہ تر کامیابیاں روس کی فوجی مدد کی وجہ سے ہوئیں۔ روسی فوج اور خود پریگوزن نے بھی بار بار ماسکو سے اعلان کیا تھا کہ اس کی افواج کو سہولیات کی کمی کا سامنا ہے اور وہ انہیں ضروری مدد فراہم کرے اور یہ کہ ویگنر کے کرائے کے فوجی باخموت میں پھنس گئے تھے۔ اس وجہ سے یوکرین کے میدان جنگ سے اس کرائے کے گروہ کے انخلاء سے روس کی عسکری طاقت کمزور ہوتی نظر نہیں آتی اور روسی محاذ سے صرف چند ہزار اہلکار کم ہو جائیں گے۔ پیوٹن نے اس میدان میں جو انتظامات کیے ہیں، ان سے یہ مسئلہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ چیچن ریپبلک کے رہنماء رمضان قادروف نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ روس کے خلاف تخریبی کارروائیوں کو روکنے کے لیے سیکڑوں چیچن فوجی روس کے بیلگوروڈ علاقے میں تعینات کیے گئے ہیں، جو یوکرین کی سرحد سے متصل ہے۔ یوکرین میں جوابی حملے شروع ہونے کے بعد بھی روسیوں کو نئے فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے اور کریملن حکام کے مطابق یہ آپریشن ناکام ہوچکا ہے اور دوبارہ عوام کو متحرک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

کیا ویگنر سکیورٹی چیلنج کا باعث بنے گا؟
ماسکو پر قبضہ کرنے اور فوجی رہنماؤں کو ہٹانے کے پریگوزن کے دعوے کے باوجود، اس گروپ کے پاس اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری طاقت نہیں ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس اندرونی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کریں گے، لیکن روس اس کرائے کے گروہ کو جولان کی اجازت نہیں دے گا، کیونکہ اس گروہ کے پاس وہ سازوسامان نہیں ہے کہ وہ طاقتور روسی فوج کے سامنے صف آرا ہوسکے اور نہ ہی اس کے پاس عوام کی حمایت ہے، جو ان کی مدد سے سیاستدانوں کو اپنے راستے سے ہٹا سکے۔ یوکرین میں ویگنر کے پاس جو بھی سامان تھا، وہ ماسکو نے فراہم کیا تھا اور اگر یہ امداد روک دی گئی تو وہ زیادہ دیر مزاحمت نہیں کرسکے گا۔ ویگنر کی افواج یوکرین کی جنگ میں روس کی شمولیت کے موقع کو استعمال کرکے روس کے کچھ حصوں کو مختصر وقت کے لیے غیر محفوظ بنا سکتی ہیں اور حکومت کے لیے سکیورٹی چیلنج پیدا کرسکتی ہیں، لیکن آخر کار ماسکو اس باغی گروپ سے نمٹ لے گا۔

روس کے پاس دنیا کی دوسری طاقتور ترین فوج ہے اور یوکرین میں اس نے جو فتوحات حاصل کیں، وہ اسی فوجی طاقت کی بنیاد پر تھیں اور ویگنر کو شکست دینا ایک برق آسا آپریشن سے ممکن نظر آتا ہے۔ دوسری جانب روسی حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہے اور یوکرین کی جنگ کے بعد پیوٹن کی مقبولیت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور مغربی دعوؤں کے برعکس روسی شہریوں کی اکثریت اس جنگ کی حمایت کرتی ہے اور اس کے درمیان ایک طرح کا قومی اتحاد اور ہم آہنگی ہے۔ عوام اور حکومت وجود میں آچکی ہے۔ لہٰذا، پوٹن ویگنر اور اس کے فوجیوں کو منتشر کرنے کے لیے عوامی قوت کی صلاحیت کا استعمال کرسکتے ہیں، کیونکہ پریگوزن نے روس کی قومی سلامتی کو نشانہ بنایا، جو عوامی مرضی سے متصادم ہے۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ چونکہ ویگنر مختلف ممالک کے کرائے کے فوجیوں کا مجموعہ ہے اور یہ افراد پیسے کے لیے لڑتے ہیں، اس لیے روسی حکومت کے لیے اس گروہ کو اندر سے ختم کرنا اتنا مشکل نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply