پاکستان ، جبری لا پتہ افراد کا گوانتا ناموبے۔منصور ندیم

لاپتہ افراد کے سلسلے میں قلم اٹھاتے یہ ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں لا پتہ افراد کے لئے لکھتے لکھتے خود بھی لاپتہ نہ ہوجائیں ,لیکن جب  ۴ دسمبر کو صوبہ خیبر پختونخوا  کے شہر سوات میں خواتین نے ریاست اور سکیو رٹی فورسز کے خلاف ایک مظاہرہ کیا اور جلوس نکالا  تو  لکھنے پر مجبور ہو ہی گیا، مظاہرے میں  موجود   خواتین کا کہنا تھا کہ ۱۲۰۰  افراد  آپریشن کے دوران سکیورٹی  فورسز نے گرفتار کیے  تھے، لیکن آج تک ان افراد کا نہ ہی پتہ چلا ہے اور نہ ہی ان پر مقدمہ چلا ہے، ان خواتین کا حکومت اور سپریم کورٹ سے مطالبہ تھا کہ وہ ان لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی ایکشن لے۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان کے ان سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے جو گزشتہ  کئی برس سے توجہ کا طالب ہے گو کہ لاپتہ افراد کے مقدمات سپریم کورٹ بھی سن رہا ہے اور لاپتہ افراد کے لئے  ایک عدالتی کمیشن بھی بنایا گیا ہے جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ جج کے سپرد ہے مگر دونوں ہی ان اداروں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں جو مبینہ طور پر براہ راست شہریوں کی گمشدگی میں ملوث بتائے جاتے ہیں ۔ گزشتہ  برس  ایک ایسے ہی مقدمے نے عالمی شہرت حاصل کی تھی جس میں لاپتہ افراد کے لئے بنائے جانے والے عدالتی کمیشن کے جج نے ایک لاپتہ  فرد کے لواحقین سے پوچھا تھا کہ انھوں نے اپنے لاپتہ ہونے والے شخص کے لئے استخارہ کروایا جس پر جواب ہاں میں ملا تو جج نے مزید استفسار کیا کہ کیا نکلا استخارے میں تو لواحقین نے بتایا کہ وہ زندہ ہیں جس پر جج صاحب نے عدالتی تاریخ کے وہ عظیم ریمارکس دیے  تھے جن کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی تھی جج صاحب کا فرمایا  تھا کہ
” آپ دعا کیجئےکہ وہ مل جائیں ہم بھی آپ کے لئے  صرف دعا ہی کر سکتے ہیں ”

ایک سائل کو انصاف کے ادارے سے ملنے والا یہ وہ انوکھا انصاف تھا جس نے لاپتہ  افراد کے لواحقین کی مایوسی کو دو چند کر دیا مگر آج بھی حالات اس سے کچھ مختلف نظر نہٰیں آتے ۔ خفیہ اداروں  کی کارفرمائی پر صرف عدالتیں ہی نقطہ اعتراض نہیں اٹھا رہی  گزشتہ  دنوں پاکستان کے سینیٹ میں بھی فرحت اللہ بابر کی طرف سے اس مسئلے کو اٹھایا  گیا ہے کہ خفیہ اداروں نے اپنے 400 سے زائد ایسے عقوبت خانے بنا رکھے ہیں جن سے کوئی بھی عام فرد یا سرکاری ادارہ واقف نہیں اور یہ بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتا  ناموبے  سے کسی طرح کم نہیں۔ سینٹ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کو ان عقوبت خانوں تک رسائی دی جائے مگر  تا حال  ایساممکن نہیں ہو سکا ہے۔

حال ہی میں بازیاب ہونے والے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصرعباس شیرازی نے بازیابی کے بعد ایک  انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا جرم جبری طور پر  لاپتہ افراد کے حق میں آواز اٹھانا تھا، میں پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا اور اس ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ چاہتا تھا، اس لیے مجھے غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر اذیت ناک جگہ رکھا گیا، 31دن سورج نہیں دیکھا، اگر میں اس ملک کے مفادات کے خلاف کوئی کام کررہاتھا تو میرا اوپن ٹرائل کیوں نہیں کیا گیا، جس ادارے نے مجھے اٹھایا اس نے یہ الزامات آج تک کسی بھی فورم پر کیوں پیش نہیں کیے، مجھے 31دن غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا گیا، اس دوران تین بار میری جگہ تبدیل کی گئی، مجھے لاہورکے ایک گنجان آباد علاقے سے میرے معصوم بچوں کے سامنے اٹھایا گیا، انہوں نے کہا کہ اس دوران میرے چہرے پر ماسک چڑھادیا گیااور دو بار گاڑیاں تبدیل کرکے مجھے تین گھنٹے بعد ایک نا معلوم مقام پر ٹھہرایا گیا، آخری بار جہاں سے میری رہائی کے احکامات آئے میں فیصل آباد کے کسی حراستی مرکز میں تھا ، انہوں نے کہاکہ مجھے حراست میں لینے سے میری رہائی تک میرے چہرے پر کالے رنگ کا نقاب ہی رہا، نقاب اتارنے کی کوشش کرتا تو جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا، جس جگہ مجھے رکھا گیاوہاں دو، دو سال سے لوگوں کو رکھا ہواہے، میں ادارے کی ہی تحویل میں تھا، انہوں نے کہا کہ جس طرح مجھے اٹھایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ اس ملک میں جنگل کا قانون ہے، مجھ سمیت جن افراد کو وہاں رکھا گیا تھا اس کے ساتھ انسانوں سے بدتر سلوک ہوتا تھا اور مجھے ایک تفتیشی کمرے میں لے جاکرکسی آفیسر کے سامنے  بٹھادیا جاتااور کہاجاتا کہ صاحب جو پوچھے اس کا درست جواب دو،جس کے بعد مجھ سے پوچھا جاتا کہ میرے کیا سیاسی مقاصداور اہداف ہیں، میں کن کن لوگوں سے ملتا ہوں ، میری جماعت آگے کیا کرنا چاہتی ہے اور میں ہیومن رائٹس اور خصوصاًلاپتہ افراد کے لئے کیوں اور کس کے کہنے پر آواز اٹھاتا ہوں ، ناصرشیرازی نے بتایا کہ مجھے چھوڑنے سے پہلے مجھے یہ پیغام بھی دیاگیا کہ اگر میں آوازاٹھائی یا اپنی گمشدگی پر شور شرابا کیا تو نہ صرف دوبارہ اٹھالیا جائے گا بلکہ آئندہ جو سلوک کیا جائے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔

بالکل ایسے ہی گزشتہ دو مہینے پہلے ۲ سال بعد واپس آنے  والی صحافی خاتون زینت شہزادی ایک بار پھر  لاپتہ کردی گئی ہے۔

اگر ہم لا پتہ افرا کی تعداد پر جائیں تو ہرادارہ اپنے اپنے ریکارڈ کے مطابق بات کرے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد ہر لحظہ بڑھ رہی ہے-’آمنہ مسعود جنجوعہ ایک  جری و بہادر خاتون اور وفا شعار بیوی، جن  کے شوہر بھی گزشتہ ۱۰ سالوں سے لاپتہ ہیں انہوں نے بجائے  ہمت ہارنے کے خود سے اس عظیم کام کا بیڑہ اٹھایا اور لا پتہ افراد کے لواحقین کی سہولت کے لئے ایک ادارہ بنایا،ڈیفنس آف ہیومن رائٹس اور وہ خود اس ادارے کی  چیئر پرسن ہیں ۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس  پاکستان بھی 2500 افراد کا ریکارڈ رکھتی ہے اورحکومتی کمیشن میں آج تک 5000 کیس سامنے آ چکے ہیں۔

لاپتہ افراد کی تعداد جو بھی ہو مگر بات اصول اور پالیسی کی ہے، جہاں سے یہ مسئلہ حل ہونا ہے۔ جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم ہے اور پاکستان کو اپنی پالیسی سیدھی کرتے ہوئے اس جرم سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لینی چاہیے۔ جب تک پالیسی میں تبدیلی نہیں آئے گی، یہ مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہے گا اور اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں لواحقین بھی اپنی جد وجہد ہر قیمت پر جاری رکھیں گے۔ جبری گمشدگی کے ساتھ ساتھ علاقہ غیر میں قائم حراستی مراکز میں موت کا انتظار کرنے والے 3000 قیدیوں کا ذکر بھی ضروری ہے یہ وطن عزیز کے وہ بد قسمت شہری ہیں جو لامتناہی قید کاٹ رہے ہیں اور انصاف کی اُمید سے مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ بے گناہ قیدی بس ایکشن ان ایڈ ٹو سول پاور کے تحت انٹرمنٹ سنٹروں میں گلنے اور سڑنے کے لیے ڈال دیے گئے ہیں۔

ان  تمام لا پتہ افراد کے لواحقین  جو بے بس اور مظلوم سینکڑوں گھرانوں کا جن کے اپنے برسوں سے لاپتہ ہیں اور ان کے لئے آواز اٹھانے والے بھی رفتہ رفتہ لاپتہ کیے  جا  رہے  ہیں ۔ گزشتہ  ماہ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمہ کی سماعت کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس دوست محمد نے کہا ہے کہ ’’اگر کسی نے جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں۔ سالہا سال سے لوگ خفیہ حراست میں ہیں۔ آئین کہتا ہے 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کریں۔خفیہ حراست غیر آئینی اور غیر قانونی ہے‘‘۔

بات بجا ہے مگر کوئی عمل کرے  تب کی بات ہے اس دکھ کا اظہار معزز عدالت کے جج جناب اعجاز افضل نے ان الفاظ میں کیا کہ ’’بدقسمتی سے خفیہ اداروں نے عدالت کو سچ نہیں بتایا‘‘۔

اس تین رکنی بنچ نے جن کیسوں کی سماعت کی ان میں لاپتہ ہونے والے شہری فیصل فراز کی ماں عدالت میں پیش ہوئی اور کہا کہ’’12 سال ہو گئے ہیں، لیکن عدالت بیٹے کا پتہ نہ لگا سکی‘‘۔ بقول اُن کے، ’’یہ ریاست نہیں مرے گی، مگر ہم نے مر  جانا ہے۔‘‘
ایک اور لاپتہ شخص تاسف ملک جس کی اہل خانہ سے ملاقات کا حکم عدالت نے گزشتہ سماعت پر جاری کیا تھا اس کے حوالے سے سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تاسف ملک کی حراستی مرکز میں اہلخانہ سے ملاقات کرا دی گئی ہے۔ اس پر تاسف ملک کے سسر نے عدالت میں کہا کہ ’’صرف تین منٹ کی ملاقات کروائی گئی، جس کے دوران بھی چار گارڈ کھڑے تھے‘‘۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ’’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تاسف ملک پر الزام کیا ہے۔ کس جرم میں کس قانون کے تحت قید ہے‘‘۔ لیکن، سرکاری وکیل اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ایک اور لاپتہ شخص عادل خان کے حوالے سے استفسار کیا اور کہا کہ عادل خان کا کچھ پتہ چلا؟ اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ’’ایجنسیوں کو لکھا ہے اور جواب کا انتظار ہے‘‘۔
سماعت کے موقع پر کمرہٴ عدالت میں موجود آمنہ مسعود نے کہا کہ ’’سات سال ہوگئے ہیں اور لاپتہ افراد کے ورثا قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ سات ماہ بعد ایک لاپتہ کے مقدمے کی باری آتی ہے۔ یہ انصاف دینے کا 30 سالہ منصوبہ ہے‘‘۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا جرم ہے بدقسمتی سے خفیہ ادارے عدالت کو سچ بات نہیں بتاتے اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے یہ خفیہ ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں ۔

کسی شخص کا پراسرار طور پر لاپتہ ہونا کیا ہوتا ہے اسے جاننے کے لئے کسی ایسے گمشدہ شخص کے اہل خانہ سے ملیں تو احساس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کس طرح  امید  کے  کچے  دھاگوں سے بندھی ہے کہ جانے کب ان کے  پیارے اچانک انھیں مل جائیں اور ان کے آنگن میں خوشیاں لوٹ آئیں ، امید اور نا امیدی  کے بیچ سفر کرتے یہ مظلوم لوگ اپنے پیاروں کےلئے کبھی سپریم کورٹ کی فٹ پاتھ پر بیٹھے نظر اتے ہیں تو کبھی لاپتہ افراد کے کیمشن کے دھکے کھاتے کبھی کسی شہر اور کبھی کسی شہر کے پریس کلب کے باہر سخت گرمی اور سخت سردی سے بے نیاز یہ مخلوق خدا اپنے پیاروں کی تصویریں ہاتھوں میں اٹھائے انصاف کی طالب نظر آتی ہے۔

میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان کو بجائے   ایک آزاد  ملک ، جس کے شہری ریاست سے ایک ماں کا تصور  رکھیں یا ایک ایسی ریاست بنانے جارہے ہیں جو گوانتا ناموبے جیسا قید خانہ ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ خود اندازہ لگا لیں کہ  ہر وہ شخص جو مقتدر حلقوں کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتا ہے غائب کیے  جانے کے خطرے کا شکار بن جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج صاحب کے یہ الفاظ ہیں کہ سچ اور حق کا ساتھ دینے کی پاداش میں انہیں یا تو مار دیا جائے گا یا پھر غائب کر دیا جائے گا۔ یہ کسی بھی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply