• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • برطانیہ سے آزادی کی تحریک عروج پر/طاہرا نعام شیخ

برطانیہ سے آزادی کی تحریک عروج پر/طاہرا نعام شیخ

اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے آزادی کی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہے، 2014میں ہونے والے آزادی کے ریفرنڈم میں اگرچہ آزادی کے حامیوں کو 45فیصد کے مقابلے میں 55فیصد سے واضح شکست ہوئی تھی لیکن ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ برطانوی یونین کی دیوار کو بس ایک اور دھکے کی ضرورت ہے اور آزادی ان کے قدموں میں ہوگی۔ ریفرنڈم کے بعد سے ویسٹ منسٹر میں مسلسل کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے جوکہ اسکاٹ لینڈ میں عمومی طور پر غیر مقبول ہے۔ اس نفرت کی وجہ سے بھی آزادی کی تحریک کمزور نہیں ہوئی۔ آزادی کی حامی اسکاٹش نیشنل پارٹی ایک نئے ریفرنڈم کے لیے اب کسی معقول بہانے کی تلاش میں تھے اور ان کی جلد ہی وہ دلیل بریگزٹ کے ریفرنڈم کی شکل میں مل گئی۔

2016ء میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں اسکاٹش عوام کی بھاری اکثریت یعنی30کے مقابلے میں62فیصد نے یورپی یونین میں اپنے حق میں ووٹ دیے تھے۔ اسکاٹش حکومت نے موقف اختیار کیا کہ وہ بدستور یورپی یونین میں رہنا چاہتے تھے لیکن برطانوی حکومت نے ان کی رائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ نکولا سٹرجن نے کہا کہ اگر اسکاٹ لینڈ کو بریگزٹ کی تباہی سے بچانا ہے تو برطانیہ سے آزادی لازمی ہے۔

2017ء میں اسکاٹش حکومت کی سربراہ نکولا سٹرجن نے اسکاٹش پارلیمنٹ سے آزادی کے ایک نئے ریفرنڈم کی منظوری حاصل کرلی تھی لیکن کوئی بھی برطانوی وزیراعظم ایک نئے ریفرنڈم کی منظوری دینے کو تیار نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ خود اسکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے ریفرنڈم کی مہم کے دوران کہا تھا کہ یہ ایک پوری نسل کے لیے ہے۔ نکولا سٹرجن کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے بعد اس کو یورپی یونین کا ممبر بنانا چاہتی ہیں۔ یورپی یونین و دیگر ممالک اسکاٹ لینڈ کو ایک آزاد علیحدہ ملک کے طور پر صرف اسی وقت تسلیم کریں گے جبکہ وہاں2014ء کی طرح برطانوی حکومت کی رضامندی سے نیا ریفرنڈم ہو۔ اگر اسکاٹ لینڈ اپنے طور پر کوئی آزادی کا ریفرنڈم کراتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ نکولا سٹرجن کی قیادت میں اسکاٹش نیشنل پارٹی نے مختلف الیکشن میں اگرچہ تاریخی اور شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن وہ آزادی کے ریفرنڈم کے لیے کوئی آئینی راستہ تلاش کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی، جس سے ان کی اپنی پارٹی پر گرفت کمزور ہورہی ہے اور آزادی کے سخت گیر حامی ان پر شدید تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان کو مستقبل قریب میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ کسی بھی وقت حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں۔

حال ہی میں ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ میں پارٹی لیڈر ایان بلیک فورڈ کے عہدہ چھوڑنے کے بعد جو الیکشن ہوا ہے، اس میں نکولا سٹرجن کے قریب سمجھی جانے والی گلاسگو سے ممبر پارلیمنٹ ایلسن تھیولیس مخالف امیدوار اسٹنین فلائین سے ہار گئیں۔ نکولا سٹرجن جوکہ ریفرنڈم کے لیے آئینی اور قانونی راستوں کی تلاش میں ہیں، پارٹی کے سخت گیر گروپ کے مطالبوں سے تنگ آکر آزادی کے نئے ریفرنڈم کے لیے19اکتوبر2023ء کی تاریخ دی، بشرطیکہ اس کو آئینی تائید حاصل ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے برطانیہ کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی، جس میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسکاٹش پارلیمنٹ اپنے طور پر برطانیہ سے آزادی کا ریفرنڈم کرواسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں اس کاجواب انکارمیں دیا۔اگرچہ یہی فیصلہ متوقع تھا لیکن اس فیصلے کے ردعمل کے نتیجے میں آزادی کے حامیوں کی مقبولیت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔

ایک تازہ ترین سروے کے مطابق56فیصد عوام نے آزادی جبکہ44فیصد نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں رائے دی۔ نکولا سٹرجن کا اب کہنا ہے کہ وہ برطانیہ کے آئندہ جنرل الیکشن کو ایک دی فیکٹو ریفرنڈم کے طور پر استعمال کریں گی اور اس میں وہ ووٹروں سے صرف ایک سوال پوچھیں گی اور50فیصد سے زیادہ عوام نے آزادی کے حامیوں کو ووٹ دیے تو اس کا مطلب ہوگا کہ عوام نے آزادی کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ چنانچہ نکولا سٹرجن اس کو برطانیہ سے نکلنے کے ریفرنڈم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یوکے کی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر غور کریں گی۔ یقیناً اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ برطانیہ کی حکومت ان کی بات سے اتفاق کرئے گی اور نہ ہی کوئی ایسا قانون ہے جو برطانوی حکومت کو نکولا سٹرجن کی بات ماننے پر مجبور کرے۔ علاوہ ازیں کئی سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں ویسٹ منسٹر کے الیکشن میں فرسٹ پاسٹ ری پوسٹ کے مطابق50فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ایک نہایت مشکل ٹارگٹ ہے۔ 50فیصد ووٹ تو اسکاٹش نیشنل پارٹی اس وقت بھی حاصل نہ کرسکی تھی جب2015ء کے جنرل الیکشن میں اس نے59میں سے56نشستیں جیتی تھی۔ اگر نکولا سٹرجن اپنے مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکیں تو وہ حکومت چھوڑنے پر بھی مجبور ہوسکتی ہیں۔ یقیناً اس وقت اسکاٹ لینڈ میں آزادی کی حمایت اپنے عروج پر ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے اسکاٹش عوام نے بالآخر برطانیہ سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے۔

فرض کیا وہ دوسرا ریفرنڈم بھی ہار جاتے ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ کوئی نیا بہانہ بناکر تیسرے ریفرنڈم کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ اسکاٹش عوام کو مطمئن کرنے اور موجودہ جمود کو توڑنے کے لیے چند انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم گورڈن برائون نے چند بڑی اصلاحات کا پروگرام دیا ہے۔ جس پر گورڈن براؤن لیبر پارٹی برطانیہ کے لیڈر سر کیئر اسٹارمر اور لیبر پارٹی اسکاٹ لینڈ کے لیڈر انس سرور کے درمیان مشاورت ہوئی ہے۔ اس پروگرام کے تحت وہ اسکاٹ لینڈ کو اتنے اختیارات منتقل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آزادی کے مقابلے میں برطانیہ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے۔ مثلاً اسکاٹ لینڈ کے کلیدی اداروں مثلاً بینک آف انگلینڈ فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس، ڈیپارٹمنٹ فار ٹرانسپورٹ، انرجی ریگولیٹر آف کام میں بھی نمائندگی دی جائے۔ وہ چند بین الاقوامی معاہدے کرنے کے علاوہ ان اداروں میں شمولیت بھی اختیار کرسکے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سول سروسز کی ہزاروں ملازمتوں کو لندن سے اسکاٹ لینڈ منتقل کیا جائے گا۔ ہاؤس آف لارڈز کو ختم کرکے علاقائی بنیادوں پر منتخب جمہوری چیمبرز قائم کیے جائیں گے۔ انگلش میئرز لوکل اتھارٹیز اور صوبائی ریاستوں کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔ اگر یہ نئی آئینی، قانونی، سیاسی و سماجی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں تو اس سے اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان بہتر تعلقات کی توقع کی جاسکتی ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کے سربراہ انس سرور ان اقدامات کے لیے پرجوش اور پرعزم ہیں کیونکہ ویسٹ منسٹر میں لیبر حکومت کے قیام میں اسکاٹش لیبر پارٹی کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ انس سرور کی قیادت میں اسکاٹش لیبر پارٹی پہلے ہی اپنی مقبولیت14سے25فیصد تک بڑھا چکی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply