• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فوجی عدالتوں کا مقدمہ عدم اعتماد کا شکار/ڈاکٹر ابرار ماجد

فوجی عدالتوں کا مقدمہ عدم اعتماد کا شکار/ڈاکٹر ابرار ماجد

دو روز قبل فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل بارے درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ میں سماعت ہوئی اور سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا اور انہوں نے اپنے تحفظات کھلی عدالت میں سب کے سامنے رکھ دیے۔

ان کا موقف بہت واضح تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے بعد ان کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ حلف سے پاسداری کرتے یا عدالتی حکم پر بنچ میں بیٹھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے آئین و قانون کی پاسداری کا حلف لیا ہوا ہے لہذا انہوں نے پنچ میں بیٹھنے کی بجائے چیمبر ورک کو ترجیح دی۔ ان کی دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں چہ مگوئیوں سے بچنے کے لئے کھلی عدالت میں بات کرتا ہوں۔ ان سے چیمبر ورک بارے دریافت کیا گیا تو انہوں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا کہ ساتھیوں نے قانون کو معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بات بھی واضح کی کہ نیا قانون آنے سے پہلے بھی بنچز کی تشکیل بارے ان کو تحفظات تھے۔

اس کے علاوہ بھی انہوں نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس کیس کو سننے سے معزرت نہیں کررہے مگرچونکہ ان کے نزدیک یہ بنچ غیر قانونی ہے اور جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ نہیں آتا وہ کسی بھی بنچ میں نہیں بیٹھیں گے۔ اس دوران اعتزاز احسن نے بھی ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اعتزاز احسن نے ان کو بڑے بھائی کی حیثیت سے مشورہ دیا کہ یہ گھر کا معاملہ ہے اور ان کو بنچ میں بیٹھنا چاہیے جس پر انہوں نے کہا یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے اور کیا وہ چاہتے ہیں کہ اس دفعہ میں اپنے حلف کو توڑ دوں۔ جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے مذید کہا کہ اگر نو ججز کا بنچ فیصلہ کر دیتا ہے تو اس کی اپیل کون سنے گا۔

چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر اپنی وضاحت پیش کی کہ حکومت اس میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے اس لئے وقت دیا گیا ہے لیکن 184(3) کے خلاف اپیل اور بنچز کی تشکیل کے موقف پر تو اعتزاز احسن نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کے موقف کی تائید کی ہے۔

ایسی صوتحال میں جب وہ اس مقدمے کو سننے سے معزرت بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اس بنچ کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی رائے دے رہے ہیں کہ وہ اس بنچ میں اس وقت تک نہیں بیٹھ سکتے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ یا عملدرامد شروع نہیں ہوجاتا۔ ایسےمیں اب چاہیے تو یہ تھاکہ بنچ کے سنئیر ترین ججزکی عدالتی رائے کے بعد ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے قانونی نقاط پر پہلے فیصلہ کیا جاتا کہ آیا یہ بنچ قانونی طور پر جائز بھی ہے یا نہیں چہ جائے کہ اس بنچ کو ختم کرکے نیا بنچ تشکیل دے دیا گیا۔ جس سے ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ جب شروع میں ہی ان کے اپنے ہی بنائے ہوئے بنچ پر اس کے اندر موجود ججز نے ہی قانونی نقاط کھڑے کردئے ہیں تو اس بنچ کومزید اعتراضات کا سامنا کرنے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ ابھی تو اس میں حکومت کی طرف سے بھی موقف آنا ہے جس میں یقیناً وہ بھی دو معزز ججز کی عدالتی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اعتراضات اٹھائیں گے۔

اس پر اٹارنی جنرل کو بھی اپنا موقف قانونی اعتبار سے واضح کرنا چاہیے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعودعباسی کا موقف درست ہے تو پھر ان کو بھی کہنا چاہیے کہ ضروری ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ کرلیا جائے۔ اگر حکومت نے بعد میں اس بنچ کے فیصلے کو متنازع بنانا ہے تو پھر ابھی سے اپنے موقف کو واضح اپنا لینا چاہیے۔ اور اگر اب حکومت اس بنچ اور اس کی کاروائی کو قانونی سمجھتی ہے تو پھر ان کو بعد میں اس بنچ کے فیصلے کو متنازع بنانے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔

چیف جسٹس صاحب کے پاس بنچز کی تشکیل کے اختیارات کو جسٹس فائزعیسیٰ کے موقف کے برعکس اگر مان بھی لیا جائے جن کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اپنی مرضی سے بنچ تشکیل دیا مگر دوران سماعت دو معزز ججز کی رائے کے سامنے آجانے کے بعد اچانک بنچ کو توڑ کر نیا بنچ تشکیل دینا صرف اس لئے کہ دو ججز نے اس بنچ کی اہلیت پر سوال اٹھا دیے ہیں لہذا ان کو نکال کر نیا بنچ تشکیل دے دیا جائے شائد اس کی اجازت ان کے اختیارات میں بھی نہ ہو۔ کیونکہ کسی بھی جج کو اس لئے علیحدہ کر دیا جائے کہ ان کی رائے سے اختلاف ہے اس کا تعلق انصاف کے عمل سے ہے نہ کہ انتظامات سے۔ انکے انتظامی اختیارات ایک دفعہ تشکیل کے بعد ختم ہوگئے اور اب یہ عدالت ہے۔ عدالت کی کاروائی شروع ہوجانے کے بعد اٹھنے والے سوالات کا تعلق عدالتی رائے سے ہے لہذا اب مقدمہ بارے معاملات عدالت کی صوابدید ہے نہ کہ انتظامی اختیارات کی۔ اب ان نقاط کا حل عدالتی رائے سے ہی طے ہونی چاہیے تھی اور ان عدالتی رائے پر مبنی اختلافات کو عدالت کی کاروائی سے نہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فیصلے سے چیف جسٹس صاحب نئے بنچ کی بجائے پہلے والے کو لے کر چلنا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت اور اختیارات کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں اور ہر ایک کی رائے کو سپریم کورٹ کی رائے کا درجہ حاصل ہے کسی بھی جج کی رائے کو بنچ سے علیحدہ کرکےنہ تو دبایا جاسکتا ہے، نہ ہی اس سے انحراف کیا جاسکتا اور نہ ہی انتظامی اختیارات کو عدالتی رائے پر حاوی کرکے نئے بنائے ہوئے بنچ کے فیصلے کواصولی طور پر انصاف کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اور ایسے فیصلوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

میرے خیال میں بنچ کو نو ججز کا ہی سمجھنا چاہیے اور اگر دو ججز اس کو جائز نہیں سمجھتے تو باقی پہلے اٹھائے جانے والےنقاط کو طے کرلیں کہ یہ بنچ قانونی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر باقی ججز سمجھتے ہیں کہ قانونی طور پر بنچ جائز ہے تو وہ اپنی کاروائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اور فیصلہ نو رکنی بنچ کی طرف سے ہی جاری ہونا چاہیے جس میں دو ججز کی رائے کو اختلافی نوٹ کی صورت دی جاسکتی ہے۔ اور قاضی فائز عیسیٰ کے تحفظات کا یہ حل ہوسکتا ہے وگرنہ اس کے بعد میں نتائج اچھے ہونے کی امید ٹھیک نہیں لگ رہی۔ چیف جسٹس صاحب اپنے انتظامی اختیارات کا اپنے ہی ہاتھوں مذاق نہ بنائیں۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب قاضی فائز عیسیٰ پہلے سے اپنے موقف کو واضح کرچکے تھے تو پھر چیف جسٹس کا انکو بنچ کا حصہ بنانے کا مقصد کیا ہے؟ اور اسی طرح ایک دفعہ پہلے بھی جب چیف جسٹس گلزار احمد تھے تو ان کی سربراہی میں ایک بنچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو عمران خان کے خلاف مقدمہ سننے سے روک دیا تھا تو اب اس مقدمے میں بھی تو عمران خان پارٹی تھے۔ شائد چیف جسٹس سرخ گلابوں کی شجرکاری کے بعد سے یہ محسوس کرنے لگے ہوں کہ اب جسٹس فائز عیسیٰ اپنے آئینی حلف کو بھول جائیں گے، وہ ان کے موقف کو آئینی سمجھ نہیں رہے تھے یا وہ کم ازکم ان کے صحیح موقف ہونے کی گواہی لینا چاہتے تھے۔

بہرحال اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ قوم کو سپریم کورٹ کے اندر کی صورتحال کھل کو معلوم ہوگئی ہے اور اب تو چیف جسٹس کو بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ اگلے نامزد چیف جسٹس ہیں وہ موجودہ سپریم کورٹ کے تمام بنچز کو غیر قانونی کہہ رہے ہیں تو ایسے میں ان بنچز کے فیصلوں کی اہمیت کیا ہوگی اور دو اڑھائی ماہ بعد اگر انہی فیصلوں کے خلاف ان کے سامنے کوئی اپیل آتی ہے تو پھر ان فیصلوں کی حیثیت کیا ہوگی۔ چیف جسٹس کو اب ہر حال میں سب سے پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ کرنا چاہیے اور وہ بھی فل کورٹ بنچ کے اندر۔ یہ پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کا معاملہ ہے اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ اس مقدمے کے درخواست گاران کو بھی چاہیے کہ وہ بنچ کے سامنے یہ موقف رکھیں کہ پہلے دو معززججز کی طرف سے اٹھائے جانے والے نقاط کو زیر بحث لاکر ان پر عدالت فیصلہ کرے۔ میں نے تو اپنے پچھلے کالم میں بھی یہ گزارش کی تھی کہ اعتزاز احسن صاحب کو اپنی درخواست کے ساتھ ہی فل کورٹ کی استدعا بھی کرنی چاہیے تھی تاکہ کل فیصلہ متنازع نہ ہوسکے۔ جب بنچ کی قانونی حیثیت پر اعتراض آجائے توقانونی نقطے پر بحث کروائے بغیر نئے بنچ کی تشکیل کی موجودہ صوتحال اختیارات سے تجاوز کا تاثر دے رہی ہے لہذا ادارے کی ساکھ کو بچانے کے لئے ایسے تاثر کو ختم کرنا چاہیے۔ اور اگر ان اعتراضات کے باوجود بھی سات ججز کے بنچ کی طرف سے فیصلہ جاری کر دیا گیا تو یہ متنازع بن جائے گا اور اس پرعملدرآمد خطرے میں پڑسکتا ہے۔

سپریم کورٹ کو چاہیے کہ درخواست گاروں کے وہ موقف لے جب وہ صاحب اختیار تھے۔ عمران خاں جب وزیراعظم کے منصب پر فائز تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہر دہشت گرد کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے۔ ان کے اس وقت کے موقف کو عدالت دیکھے، اسی طرح اعتزاز احسن جب 2015 میں ترمیم کی گئی تو وہ سینیٹ کے ممبر اور لیڈر آف اپوزیشن تھے اسی طرح جواد ایس خواجہ بھی اعتزاز احسن کی طرح اس کیس میں یوں تو متاثرہ فریق نہیں اور اگر ان کے موقف کو بھی جاننا ہے تو جب وہ جج تھے تو ان کا کیا موقف تھا اس کو بھی دیکھا جائے اس سے خود بخود ہی واضح تصویر سامنے آجائے گی کہ یہ سب لوگ واقعی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف ہیں، ان کو انسانی حقوق کا مسئلہ درپیش ہے یا کوئی سیاسی مقاصد ان کو سپریم کورٹ آنے پر مجبور کر رہے تھے۔ ویسے تو اس بنچ میں موجود ججز کی بھی سابقہ فیصلوں میں عدالتی آراء موجود ہیں۔

اگر تو آئین و قانون کی نظر میں سویلین کے انسانی حقوق کا معاملہ ہی ہے تو پھر جو اسباب ان حقوق کی خلاف ورزی کا موجب بنتے رہے ہیں اورجو ستر سالوں سے اس پر عملدرآمد کرواتے رہے ہیں بلکہ اس کو صحیح بھی گردانتے رہے ہیں اور جب اب ان کی اپنی باری آئی ہے تو ان کو اپنے سابقہ موقف اتنی جلدی کیوں بھول گئے ہیں۔ قانون کا ایک بہت ہی خوبصورت میگزم ہے کہ

He who comes into equity must come with clean hands۔

جو بھی عدالت آتا ہے اس کے اپنے ہاتھ صاف ہونے چاہیں اب موصوف سابق وزیر اعظم جو ان تمام فریقین میں سے اس مقدمے کے متاثر فریق ہیں ان سے پوچھا جائے کہ جن لوگوں کے ٹرائل ان کے دور وزیر اعظم میں ان کی اجازت سے ہوئے ان کا ذمہ دار کون ہے۔ اور ان سے پوچھا جائے کہ کیا اب انہی عدالتوں کو چیلنج کرنے کا ان کے پاس کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہے؟

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگر فوجی عدالتوں میں 9مئی کے ملزمان کا ٹرائل قانونی نہیں تو کیا جو کچھ سپریم کورٹ میں ہورہا ہے اور سپریم کورٹ کے اندر اس صورتحال پر تحفظات موجود ہیں اور اسی بنچ کے ججز کے بقول چیف جسٹس اپنے اختیارات سے متجاوز اور زبردستی انصاف دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو کیا اس کاروائی کا جاری رہناسب کچھ انصاف کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ جن حالات کو سپریم کورٹ کی اپنی عدالتی رائے قانون سے متصادم سمجھتی ہے ان کا کوئی کیسے تحفظ کر سکتا ہے۔

اب جس طرح سے جسٹس فائز عیسیٰ کے نوٹ کو سپریم کورٹ پر اپ لوڈ ہونے کے بعد ہٹا دیا گیا ہے اس کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔ ان کے نوٹ کو ہٹانا تو عدالتی رائے کو ختم کرنے یا فیصلے کو اپنے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکےعدالتی ریکارڈکو مسخ کرنے کی کوشش ہے جس کو کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر موجودہ طرز کے بنچز کے پہلے والے فیصلے دیکھیں اور ان میں پشین گوئیوں سے لے کر عملدرآمد تک کے احوال کو زیر غور لائیں تو معلوم یوں ہوتا ہے گویا یہ مقدمہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے کیونکہ ٹاک شوز میں تبصروں سے لے کر پارلیمان میں تقریروں تک اس پر عدم اعتماد ہوچکا ہے جس کی بنیاد بھی عدالتی حکمت و دانائی ہی ہے جس کو بنچ کے اندر سے ہی بلند کیا گیا ہے جس کو نظر انداز کرنے کے بعد باقی سیاسی چاہت و نوازشات کی داستانیں ہی بچیں گیں جن کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کے اندر کے بنیادی اختلافات کو ختم کرکے آگے نہ بڑھا جائے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد خطرے سے دوچار لگ رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply