• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران سعودی مذاکرات امکانات و خدشات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ایران سعودی مذاکرات امکانات و خدشات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب اور ایران کی براہ راست کوئی سرحد نہیں ملتی، دونوں ممالک کا کوئی سمندری حدود کا جھگڑا بھی نہیں ہے۔ اسی طرح سعودی عرب عالم اسلام کی رہبری کا دعویدار ہے اور خود کو خادم حرمین شریفین کے لقب سے ملقب کیا ہوا ہے۔ ایران نے بھی عالم اسلام کے خادم ہونے کا اعلان کیا اور اسلام کے دشمنوں سے جنگ اور مسلمانوں کے دشمنوں سے دشمنی کا اظہار کیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سعودی عرب خوش ہوتا، آگے بڑھ کر ایران کے ساتھ دوستی کا اظہار کرتا اور عالم اسلام کو مل جل کر آگے لے جاتے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس کے برعکس ہوا، جب ایران پر ایک ظالم و جابر بادشاہ مسلط تھا تو سعودی عرب کی اس سے دوستی تھی، حالانکہ اس کے دور میں ایران کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہوچکے تھے، مگر جب خمینی ؒ بت شکن نے عالم اسلام کی سربلندی اور لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ لگا کر اسلام کی مرکزیت کی بات کی تو سعودی قیادت ایران کی دشمن ہوگئی ہے۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سعودی عرب سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟ اور ایران سعودیہ کو دشمن کیوں بنائے گا۔؟ ہاں یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ جن پر سعودی عرب اپنے دفاع کے لیے بھروسہ کرتا ہے اور وہ علی الاعلان ایران کے دشمن ہیں اور ایران کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے اور کافی عرصے سے یہ عمل جاری ہے۔

آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ عالم اسلام کا درد رکھنے والا ہر انسان سعودی عرب اور ایران کے اچھے تعلقات کی امید رکھے۔ اسی لیے جب کہیں سے بھی یہ خبر آتی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان برف پگھل رہی ہے تو ہر طرف خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ آیۃ اللہ باقر النمر کی شہادت سے سفارتی تعلقات میں آنے والی سرد مہری ختم نہیں ہو رہی، حالانکہ یہ نارمل سی بات ہے کہ جب لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی تو وہ ردعمل دیتے ہیں اور دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملکی عمارت بچانے کے لیے اپنے شہریوں کا قتل عام نہیں کرتا۔ افغانستان میں بارہا وطن عزیز کے سفارتخانے کو نقصان پہنچایا گیا، مگر پاکستان نے کبھی سفارتی بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خبریں آئیں تھیں کہ بغداد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور ان کے مسلسل پانچ ادوار ہوئے ہیں۔ امید تھی کہ ان کا جلد نتیجہ نکلے گا اور جلد سفارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے، مگر یوں لگتا ہے جیسے سعودی عرب کسی اور مقصد کے لیے ایران سے بار بار وقت لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی لیے ایران نے پانچ ادوار کے بعد وزرائے خارجہ کی سطح کے مذاکرات کرنے کی تجویز دی، تاکہ ان مذاکرات کے نتائج سامنے آئیں۔

ویسے بھی ایران کی موجودہ حکومت ہمسائیوں سے بہترین تعلقات کی پالیسی لے کر آئی ہے۔ عمان اور قطر سے بہترین تعلقات ہیں اور عراق کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ آپ دیکھیں عراق کے وزیراعظم مصطفیٰ کاظمی ایک دن کے لیے ریاض گئے اور اگلے ہی دن ایران پہنچ گئے۔ یہاں انہوں نے رہبر معظم، صدر اسلامی جمہوریہ ایران اور وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ اس ساری صورتحال میں کچھ امید پیدا ہوتی ہے کہ یمن اور سیریا میں جو کچھ ہوا، اس سے کچھ سبق حاصل کیا جائے گا اور محض خواہشات پر چلنے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھا جائے گا۔ دنیا ستر کی دہائی سے بہت آگے نکل چکی ہے، اب مغرب اور امریکہ کی کوئی نہیں سنتا تو آپ اگر جبر کا مظاہرہ کریں گے تو کوئی نہیں سنے گا۔ آپ نے یمن میں اس کا بڑی اچھی طرح مشاہدہ کر لیا ہے۔ اس طرح کی ملاقاتیں دیکھ کر جو امید پیدا ہوتی ہے، وہ فوری ان خبروں میں ہوا ہو جاتی ہے۔ ابھی گارڈین میں پڑھ رہا تھا کہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں امریکی جنرل فرینک، اسرائیل کے دفاعی نظام کے انچارج، مصر، اردن، سعودی عرب، بحرین اور عرب امارات کا اجلاس ہوا ہے۔ اس اجلاس کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا تھا کہ ایران کا راستہ روکا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس کا مقام ہے کہ امریکہ اور اسرائیل تو اس بات کی منصوبہ بندی کریں کہ ایران کا راستہ روکیں، مگر یہ مسلمان ممالک کس لیے ان کی پناہ میں جانے کو بیتاب ہیں۔؟ میں بارہا اس موضوع پر لکھ چکا ہوں کہ امریکہ اور اسرائیل عربوں کو خوف بیچ رہے ہیں۔ وہ عرب ممالک کو ڈرا رہے ہیں کہ ایران آ رہا ہے، ایران آ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی سے عربوں کے دلوں خوف پیدا کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان ممالک کو ایران کے اسلحے یا ایران کی طاقت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایران نے تو براہ راست کسی دوسرے ملک پر کبھی قبضہ نہیں کیا اور جن ممالک کی پناہ میں یہ ممالک جانا چاہتے ہیں، وہ نہ صرف ابھی تک کئی ممالک پر قابض ہیں بلکہ اسرائیل تو پورے فلسطین کو کھا گیا ہے۔ ان ممالک کو اصل خوف تو ان سے کرنا چاہیئے تھا۔ سعودی عرب جیسے ملک کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ جب خود امریکہ کا دفاعی نظام سعودیہ کو نہیں بچا سکا تو اسرائیل کا نظام اس کا کہاں تک دفاع کرے گا۔؟ دوسرا قبلۃ المسلمین کا خادم قبلۃ اول کے دفاع سے کیسے غافل ہوسکتا ہے؟ اور ان قوتوں کے ساتھ کیسے اتحاد کرسکتا ہے، جو مسلمانوں کی زمینوں کو ہڑپ کرچکے ہیں اور آئے روز مسلمانوں کے گھر جلانا اور ان کو شہید کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے اور ان کی جیلیں مسلمانوں سے بھری پڑی ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply