آوازوں کا اغوا

میں سلمان حیدر سے کبھی نہیں ملا اور نا ہی کوئی ذاتی واقفیت ہے۔ دو ٹیکسٹ ہیں جو میری اور انکی آشنائی کی یاد ہیں۔ جب “مکالمہ” شروع ہوا تو ان کو لکھنے کی دعوت دی اور دوسری بار مکالمہ کانفرنس لاہور میں شرکت کی دعوت۔ البتہ انکے کاٹ دار کمنٹس اور سٹیٹس اکثر نظر سے گزرے اور ان کا تاثر ایک سول رائیٹس ایکٹیوسٹ کا رہا ہے۔ پھر اک دن یکدم سلمان حیدر گم ہو گئے۔

یہ ایک اتفاق ہے کہ میں نے “بھینسا” نام کا پیج بھی کبھی نہیں دیکھا۔ میری ایک عادت ہے کہ کوئی بھی پیج یا شخص اگر گستاخانہ مواد لگاتا ہو تو بجائے اسکی تشہیر کرنے، دوستوں کو متوجہ کرنے کے، میں ایسا پیج رپورٹ کر کے بلاک کر دیتا ہوں۔ شاید اس لئیے اب فیس بک مجھے اکثر ایسے پیج دکھاتا ہی نہیں ہے۔ سلمان حیدر کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی گم ہو گئے اور “بھینسا” اور روشنی نام کے پیج بھی بند ہو گئے۔ اس کے بعد یہ تاثر دیا گیا اور تسلسل سے یہ معلومات فیڈ ہوئیں کہ بھینسا نامی پیج سلمان حیدر چلا رہے تھے۔ “ایلیٹ سائبر فورس” نامی کسی ادارے نے بھینسا کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اب بھینسا اخلاق کی تبلیغ کر رھا ہے۔

اوّل تو یہ واضح نہیں تھا کہ یہ لوگ گرفتار ہوے یا کسی مجرم کے ہاتھوں اغوا۔ مگر پھر گرفتاریوں کے پیٹرن اور سوشل میڈیا پہ مخصوص انداز کی کمپین نے یہ واضح کر دیا کہ یہ لوگ سکیورٹی اداروں کی ہی تحویل میں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سلمان حیدر مجرم ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انکی گرفتاری کی تاویل پیدا کی جا رہی ہو۔ دونوں صورتوں میں ہی طریقہ نہایت غلط ہے۔ قانون سکیورٹی اداروں کو نوے روز تک “ڈیٹینشن” کی اجازت دیتا ہے۔ اگر الزامات کے ثبوت اتنے مظبوط تھے کہ یہ اشخاص اٹھائے گئے تو پھر اس پراسرار طریقے سے انکے اغوا کی کیا ضرورت تھی۔ فقط انکو گرفتار کر کے ان پہ لگے الزامات کا اعلان کر دیا جاتا۔ یہ تاویل اکثر دی جاتی ہے کہ عدالتی نظام مجرم کو سزا نہیں دے پاتا سو کئی بار ایسے اقدامات ضروری ہو جاتے ہیں۔ مگر جنابِ عالی، سزا دینا تو شاید آپ کا مقصود بھی نہیں ہے۔ پنجابی کی مثال “گل سن دھئیے تے کن کر نوحے” (بیٹی کو بات کر کے بہو کو سنانا) کی پالیسی کے تحت یہ لوگ شاید زیادہ عرصہ تو آپ نے رکھنے بھی نہیں۔ تو اگر انکو باقاعدہ گرفتار کر کے کچھ دن کا مہمان رکھ لیا جاتا تو بھی آپ اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل فرما ہی سکتے تھے۔

یاد رکھیے، سیکیورٹی ادارے شہریوں کیلیے تحفظ کی ضمانت ہوتے ہیں، دہشت کا نشان نہیں۔ جس کسی نے آپکو “اغوا کار” بننے کا مشورہ دیا ہے، فقط آپ سے دشمنی ہی کی ہے۔

کچھ دوست بہت خوش ہیں کہ “لبرل” اٹھائے گئے ہیں۔ کچھ دوستوں کو سلمان کیلیے آواز اٹھانے پہ گلہ ہے کہ اسلامسٹوں کے پولیس مقابلے اور اغوا پر آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ ان دوستوں سے گزارش ہے کہ اوّل تو خوش نا ہوں، اگر آندھی چلی ہے تو جلد اور درخت بھی زمیں بوس ہوں گے۔ ہاں ہم تب آپ کا نوحہ بھی ضرور لکھیں گے۔ دوسرا شدت پسندی سے منسلک لوگوں کا تقابل ایک بظاہر امن پسند سلمان حیدر سے فقط زیادتی ہے۔ ہاں بہت سے بظاہر معصوم اسلام پسند بھی غائب ہیں اور ہم کو انکیلیے بھی آواز اٹھانا چاہیے۔ مگر اس وقت اٹھنے والی آوازیں لبرلزم کی وجہ سے نہیں، سوشل میڈیا پر ممکنہ اثرات کی وجہ سے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوشل میڈیا ایک ایسا سماج ہے جو عوام نے خود تشکیل دیا اور اپنے بیانئیے خود منتخب کیئے۔ اس میڈیم پر گو منفیت بھی ہے مگر بہت سی مثبت چیزیں بھی ہیں۔ ہم اس میڈیم پر اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہیں جسے آزادی اظہار کہتے ہیں۔ آزادی اظہار مذہبی ، ذاتی یا سیاسی دلآزاری سے پاک ہو تو ایک سماج کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اغوا اور گمشدگیاں سوشل میڈیا سے احساس تحفظ چھین لیں گی اور آزادی اظہار خوف کا شکار ہو جائے گا۔ نجانے کس وقت کس کا ذاتی پیج یا سائیٹ یہ “ایلیٹ سائبر فورس” سنبھال لے۔ اس لئیے دوستوں سے گزارش ہے کہ آوازوں کے اغوا کو لبرل اور اسلامسٹ میں تقسیم نا کیجیے۔ قانون کے مطابق کاروائی پہ اصرار کیجیے اور اپنے آزادی اظہار کے حق کی حفاظت کیجیے۔ آپ آج سلمان حیدر کی خوشی منائیں گے تو کل دوسری طرف نوفل ربانی کی خوشی منائے جائے گی۔ البتہ “مکالمہ”، سلمان حیدر ہوں یا نوفل ربانی، دونوں کیلیے قانون کے مطابق کاروائی پہ اصرار اور آوازوں کے اغوا کی مذمت کرتا رہے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply